شہر اقتدار میں ایک تاریک دن دیکھنے کو ملا جب انسداد تجاوزات مہم کے دوران وکلاء کے ایک گروپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں اپنے چیمبروں کے انہدام کے خلاف احتجاج کیا اور وکلاء کی جانب سے تشدد کے متعدد واقعات ماضی میں بھی دیکھنے میں آئے لیکن پیر کو پیش آنے والے واقعہ نے قانون کے رکھوالوں کے سرشرم سے جھکادیئے ہیں۔
متشدد وکلاء نے کمرہ عدالت کا محاصرہ کیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر کو توڑ ڈالا اور ان کو کئی گھنٹوں تک عملاًیرغمال بنایا گیا۔ وکلاء نے چیف جسٹس کے سیکریٹری کے دفتر میں گھس کر عملے پرتشدد کیا، کھڑکیاں اور دروازے توڑے ، ججوں سے بدسلوکی کی جبکہ اس دوران ہائیکورٹ کو بند کردیا گیا اور دن بھر کی کارروائی مکمل طور پر معطل رہی۔
عدلیہ کو قانونی برادری کے ساتھ قانون شکن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی ورنہ اس طرح کے واقعات دوبارہ بھی پیش آسکتے ہیں ، پولیس نے تشدد میں ملوث 21 وکیلوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جبکہ انہیں توہین عدالت کی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے ساتھی ان کی حفاظت کرتے ہیں اور وکلاء کو فوراًہی ضمانت مل جاتی ہے اور کارروائی ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچتی ۔
بینچ اور بار کو اس معاملے کو ایک مثال پیش کرنا چاہئے کہ وکلاء برادری کے اندر متشددعناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور انہیں برخاست کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر چیف جسٹس کو بخشا نہیں جاسکتا اور ناراض وکلاء کے ایک گروپ کے ذریعہ دھمکی دی گئی ہے تو پھر یہ دوسرے ججوں اور کمزوروکیلوں کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور اب اعلیٰ عدلیہ کو بھی کارروائی کرنا ہوگی۔
وکلاء کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ ان کے چیمبر غیرقانونی طور پر بنائے گئے تھے اور انہیں مسمار کرنا سی ڈی اے کا فرض تھا، یہ معاملہ 2013 سے زیر التوا ہے جب وکلاء نے اپنے چیمبر غیر قانونی طور پر فٹ بال گراؤنڈ پر بنائے تھے اور شہری اتھارٹی نے ان کے خلاف کارروائی کی تھی، وکلاء کو احتجاج کا حق ہے لیکن یہ پرامن طریقے سے ہونا چاہئے۔
جن وکلا نے عدالت کے تقدس کو پامال کیا ہے انہیں سزا ملنی چاہیے، دسمبر 2019 میں وکلاء کے ہجوم نے لاہور کے ایک اسپتال پر حملہ کیا ، ایمرجنسی وارڈ میں توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں تین مریضوں کی موت ہوگئی۔
یہ واقعہ چونکا دینے والا تھا لیکن اس واقعہ کو دبا دیا گیا جس کی وجہ سے وکلاءکی ہمت بڑھ چکی ہے اور اگر اب بھی تشدد پسند وکلاء کو سزاء نہ دی گئی تو وکلاء گردی بھی ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے اور اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی پیش آسکتے ہیں۔