گزشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ اپنے چیمبر میں موجود تھے کہ بڑی تعداد میں وکلاء نے ان کے چیمبر کو گھیر لیا اور خوب نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کی۔عوام کو انصاف مہیا کرنے والی عدالتِ عالیہ اسلام آباد کو میدانِ جنگ بنا دیا گیا۔
وکلاء کے احتجاج کا یہ واقعہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سامنے نہیں آیا۔ آئیے وکلاء کے طریقۂ احتجاج پر گزشتہ واقعات کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر قانون کے رکھوالے ہی قانون ہاتھ میں لے لیں تو انصاف کیلئے دربدر بھٹکنے والے عوام کے مستقبل کی آخر کیا ضمانت دی جاسکتی ہے؟
سن 2015ء میں ڈسکہ کا واقعہ اور وکلاء کا احتجاج
ڈسکہ میں ایس ای او کی فائرنگ کے باعث تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور عرفان چوہان ایڈووکیٹ جنہیں مئی 2015ء میں سپردِ خاک کیا گیا۔ وکلاء نے اس موقعے پر ملک گیر احتجاج کیا۔
لاہور میں مشتعل وکلاء نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا گھیراؤ کیا۔ مرکزی دروازے پر سیکیورٹی شیڈ کو نذرِ آتش کردیا اور بہت توڑ پھوڑ کی۔ ریلیوں اوراحتجاج کے باعث ٹریفک کا نظام تباہ ہو کر رہ گیا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں وکلاء کا احتجاج
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخآر محمد چوہدری کی معطلی کے خلاف سن 2007ء میں وکلاء نے ملک گیر احتجاج شروع کیا جس کے دوران پولیس کے لاٹھی چارج سے متعدد وکلاء زخمی بھی ہوئے۔
وکلاء تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ چاروں صوبوں میں عدالتی کام کا بائیکاٹ کیا جائے جس پر ایسا ہی کیا گیا اور چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف تحریک ملک گیر رخ اختیار کر گئی۔
پنجاب اسمبلی میں وکلاء احتجاج پر آواز بلند کی۔ حکومتی اراکین صدر مشرف کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ اسمبلی کی سیڑھیوں پر علیحدہ علیحدہ مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ وکلاء کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی جس کا سب سے بڑا مظاہرہ لاہور میں ہوا۔
پولیس نے وکلاء کو ہائیکورٹ سے باہر جانے سے روکنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ کا بڑا دروازہ بند کردیا۔ بعد ازاں وکلاء پولیس کی رکاوٹیں ہٹانے کے بعد ہائیکورٹ سے مال روڈ پر آکر آگے بڑھنے لگے۔ ریگل چوک پر پولیس نے وکلاء پر لاٹھیاں برسا دیں۔
سینیٹر لطیف کھوسہ کا سر پھٹ گیا اور متعدد وکلاء کی ٹانگوں اور چہرے پر متعدد چوٹیں آئیں۔ لاٹھی چارج کے باعث درجنوں کی تعداد میں وکلاء زخمی ہوگئے۔ پھر بھی احتجاج جاری رہا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کا واقعہ
رواں ماہ 8 فروری کے روز غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ چیمبرز منہدم کرنے پر وکلاء نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں شدید توڑ پھوڑ کی اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر کے باہر شدید نعرے بازی اور پتھراؤ بھی کیا۔
کچہری میں قائم چیمبرز گرانے پر وکلاء نے چیف جسٹس بلاک میں کھڑکیوں کے شیشے توڑ ڈالے۔ مشتعل وکلاء نے چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے عملے سمیت صحافیوں اور میڈیا سے بھی بدتمیزی کی۔
ویڈیو بنانے پر ایک صحافی کو زدوکوب کیا گیا۔ وکلاء نے ضلع کچہری کی تمام عدالتیں بند کرادیں اور ہائیکورٹ میں بھی اس دوران مقدمات کی کارروائی بند کردی گئی۔ ہائیکورٹ میں سائلین کا داخلہ بند رہا۔
چیف جسٹس کے چیمبر سمیت وکلاء نے رجسٹرار برانچ میں بھی شدید توڑ پھوڑ کی اور آفسز کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ کئی گھنٹوں تک چیف جسٹس اطہر من اللہ اپنے چیمبر میں محصور رہے۔
کارروائی کا فیصلہ
آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں ملوث وکلاء کو شناخت کرکے دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں آئی جی جمیل الرحمان، ڈی آئی جی سیکیورٹی و آپریشن، ایس ایس پی آپریشن، سیشن جج طاہر محمود اور رجسٹرار اسلام آبادہائیکورٹ شریک تھے۔
اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 250 سے 300 وکلاء کےخلاف دہشت گردی کے مزید مقدمات درج کیے جائیں کیونکہ گزشتہ روز درج کی گئی ایف آئی آر میں صرف 32 وکلاء نامزد تھے۔
وکلاء گردی اور انصاف کی امید
خوف و دہشت کی علامت ایک لفظ دہشت گردی کی طرز پر وکلاء گردی کا نیا لفظ کب معرضِ وجود میں آیا، اس حوالے سے ٹھیک ٹھیک کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم مشرف دور سے بہت پہلے یہ اصطلاح تخلیق ہوچکی تھی کیونکہ وکلاء میں لاقانونیت کوئی 15 یا 20 سال پہلے کی نہیں بلکہ شاید قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی چلی آرہی ہے۔
آج سے تقریباً 3 سال قبل ایک کالم نگارملک محمد سلمان نے تحریر کیا کہ جس ملک میں وکلاء قانون شکن ہوں، ججز کو گالیاں دی جائیں اور انہیں زدوکوب کیا جائے۔ کمروں میں محبوس کردیا جائے۔ ایسے معاشرے میں انصاف کی کیا امید کی جاسکتی ہے؟
کالم نگار محمد سلمان کے مطابق ایسے وکلاء جو وکلاء گردی، تشدد پسندی اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں، آٹےمیں نمک کے برابر ہیں تاہم ان مٹھی بھر وکلاء نے اکثریت میں موجود فرض شناس وکلاء کی ساکھ خراب کردی ہے جبکہ وکالت ایک بے حد معزز پیشہ ہے جسے دکھی انسانیت کی عظیم خدمت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
محمد سلمان نے کہا کہ بے شمار وکلاء آج بھی حق کا ساتھ دیتے ہیں اور جھوٹے مقدمات نہیں لڑتے۔ یہ لوگ قانون کی بالادستی کیلئے طویل جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ عظیم قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ ایسے وکلاء کی پریکٹس پر پابندی لگا دینی چاہئے جو کالے کوٹ کی آڑ میں وکلاء گردی کرتے ہیں۔