وطنِ عزیز پاکستان میں گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ میں مسلسل خسارہ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ سن 1980ء کی دہائی میں کرنٹ اکاؤنٹ کا اوسط خسارہ جی ڈی پی کا 3 اعشاریہ 9 فیصد تھا۔ 90ء کی دہائی میں یہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ 5 فیصد ہوگیا اور 2000ء کی دہائی میں اوسط موجودہ خسارہ جی ڈی پی کا 3 اعشاریہ 9 فیصد رہا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں اکتوبر کے دوران لگاتار چوتھے مہینے اضافی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا جو 382 ملین ڈالر یا جی ڈی پی کا 1 اعشاریہ 6 فیصد رہا۔ گزشتہ برس اسی مہینے میں سرپلس 73 ملین دالر سے 423 پی سی (فزیکل کیپٹل) رہا جبکہ ماہوار بنیادوں پر یہ 547 پی سی رہا جس کے مقابلے میں ستمبر میں اس کی سطح 59 ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی۔
یہ رقم ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافے اور کم تجارتی خسارے کی وجہ سے سامنے آئی۔ جولائی میں رواں مالی سال کے آغاز کے بعد سے موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ کی اضافی رقم 1 اعشاریہ 2 ارب تک جا پہنچی جو گزشتہ برس اسی عرصے میں ریکارڈ شدہ 1 اعشاریہ ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں منفرد ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں اکتوبر 2020ء میں مسلسل چوتھے ماہ سرپلس ریکارڈ کیا گیا۔ ترسیلات بھی 2 اعشاریہ 2 ارب ڈالر پر تسلی بخش رہیں۔
رواں مالی سال کے دوران ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافے سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری آئی۔ تجارتی خسارہ سکڑتا جارہا ہے اور صنعتی پیداوار میں نمو مستحکم نظر آتی ہے۔ نومبر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق زرِ مبادلہ کے مجموعی ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے تھے۔
نومبر 2020ء تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر بڑھ کر 12 اعشاریہ 93 ارب ڈالر ہو گئے جو فروری 2018ء کے بعد کی بلند ترین سطح ہے۔ ملک کے پاس موجود لیکؤڈ فارن ریزروز بڑھ کر 20 اعشاریہ 08 ارب ڈالر ہو گئے۔ عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے قرض دہندگان کی آمد کے باعث ذخائر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ کم تجارتی خسارہ اور وسیع ذخائر کے ساتھ ساتھ وبائی مرض کی وجہ سے تعلیم اور سفر کے اخراجات کی صورت میں آؤٹ فلو کم رہا۔
روپے نے بھی اپنی کھوئی ہوئی قدر کسی قدر بحال کرنا شروع کردی۔ حکومت اپنے پہلے 2 سالوں میں برآمدات کے سالانہ ہدف کو پہلے ہی کھو چکی ہے۔ رواں مالی سال کیلئے حکومت نے برآمدات کا ہدف 27 اعشاریہ 7 ارب ڈالر مقرر کیا تھا جس میں سے صرف 6 اعشاریہ 2 فیصد اضافے کی ضرورت پیش آئے گی تاہم پہلے 5 ماہ میں درآمدات سالانہ ہدف کے تقریباً 46فیصد کے برابر رہیں۔
سالانہ بنیادوں پر نومبر 2020ء میں تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 7 اعشاریہ 9 فیصد بڑھ گیا اور 1 اعشاریہ 9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2 اعشاریہ 1 ارب ڈالر ہوگیا جو فیصد کے لحاظ سے برآمدات اور درآمدات میں یکساں اضافے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں 2003ء سے مستقل تجارتی خسارہ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ توانائی کی زیادہ مقدار میں درآمد تھی۔
چین امریکا کی جگہ لے کر پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر ابھرا۔ حالیہ برسوں میں سب سے بڑا تجارتی خسارہ چین، بھارت، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت اور ملائشیاء کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان نے امریکا، افغانستان، جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ تجارت میں اضافہ ریکارڈ کیا۔
مرکزی بینک کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نومبر 2020ء میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بڑھ کر 447 ملین ڈالر ہوگیا جس کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی برآمدات اور ترسیلاتِ زر تھیں، قبل ازیں 326 ملین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا۔ اکتوبر 2020ء میں سرپلس 414 ملین ڈالر رہا۔ مالی سال 05-2004ء سے 09-2008ء کے لیے جی ڈی پی کے تناسب میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 0.83 سے 5.8 فیصد تک رہا تاہم 10-2009ء کے دوران یہ 2 اعشاریہ 13 فیصد تھا۔
تاہم کرنٹ اکاؤنٹ 11-2010ء میں سرپلس ہوا جس کے بعد یہ دوبارہ خسارے میں بدل گیا۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی تا نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس جی ڈی پی کے 1 اعشاریہ 4 فیصد کے برابر رہا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں رواں مالی سال 2021ء میں موجودہ تجارتی توازن میں بہتری اور ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا ہے۔
نومبر 2020ء میں برآمدات اور درآمدات دونوں میں اضافہ ہوا جو بیرونی طلب اور گھریلو معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی عکاسی کرتا ہے۔ ملکی درآمدات کی اعلیٰ سطح کو برقرار رکھا جاسکتا ہے کیونکہ مضبوط ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں بہتری سے معیشت کو مدد مل رہی ہے۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے توقع سے بڑھ کر ترسیلاتِ زر مہیا کیں جس سے ملک کو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس برقرار رکھنے، ملکی کرنسی کو مستحکم کرنے، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے اور غیر ملکی قرضوں کی واپسی میں مدد فراہم کی ہے۔ جولائی سے لے کر نومبر تک پاکستان میں ترسیلاتِ زر 26 فیصد اضافے کے ساتھ 11 اعشاریہ 77 ارب ہوگئیں۔