جموں و کشمیر سے متعلق تنازعہ، برطانوی حکمرانوں کی جانب سے اگست 1947 میں برصغیر پاک و ہند کو دو آزاد ریاستوں پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کرنے کے نامکمل ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔ یہ تنازعہ گزشتہ 74 سالوں کے دوران تین جنگوں کا سبب بن چکا ہے۔
اس تنازعہ کے باعث دونوں جوہری ریاستوں کے درمیان جوہری جنگ بھی ہوسکتی ہے، جس کے تباہ کن نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا، عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم جواہر لال نہرو تھا جس نے 1948 میں جموں و کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھیجا۔ نتیجہ کے طور پر، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47، جو 21 اپریل 1948 کو منظور ہوئی، تنازعہ کشمیر کے حل سے متعلق ہے۔
قرارداد میں تنازعہ کو حل کرنے کے لئے تین مرحلوں میں عمل کی سفارش کی گئی۔ پہلے مرحلے میں، پاکستان اپنے تمام شہریوں کو واپس بلا لے گا جو جنگ کی خاطر کشمیر میں داخل ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں، ہندوستان آہستہ آہستہ اپنی افواج کو امن و امان کے لئے مطلوبہ کم سے کم سطح پر گھٹا دے گا۔ تیسرے مرحلے میں، بھارت اقوام متحدہ کے ذریعے نامزد کردہ ایک مباحثہ منتظم کی تقرری کرے گا جو آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا انعقاد کرے گا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے کبھی بھی اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں کیا اور جموں و کشمیر کے عوام اپنے حق خود ارادیت کو استعمال کرنے کے لئے تڑپ رہے ہیں، جیسا کہ ان دونوں کا وعدہ یو این ایس سی اور پہلے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ میں ہندوستانیوں کواور ان کے موجودہ حکومت کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں، کشمیریوں کے ساتھ ان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے اگست 1952 میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے فلور پر کئے گئے عہد کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔
ہم مسلح طاقت کی مدد سے کشمیر کے لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف دبانانہیں چاہتے ہیں۔ اور اگر کشمیری عوام ہم سے دوری اختیار کرنا چاہتے ہیں تو، وہ اپنے راستے میں جاسکتے ہیں اور ہم اپنے ساتھ جائیں گے۔ ہم زبردستی کی قربتیں، کوئی زبردستی یونین نہیں چاہتے ہیں۔
ہم پاکستان میں ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہندوستان کا قانونی اور لازمی حصہ نہیں مانتے کیوں کہ کشمیری عوام نے کبھی بھی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری میں ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ لہٰذا، ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 370 کبھی بھی ہماری پریشانی کا باعث نہیں تھا، کیوں کہ کشمیری عوام کی رضامندی کے بغیر نہرو اور بھارت نواز کشمیری رہنما شیخ محمد عبد اللہ کے مابین یہ سمجھوتہ ہواتھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق ہندوستان کے زیراثرجموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کو یہاں کے رہنے والے لوگوں کے حقوق کو یقینی بنانا ہوگا۔ جنیوا چہارم کا آرٹیکل 32 مقبوضہ علاقے میں عام شہریوں کے خلاف تشدد پر پابندی عائد کرتا ہے اور آرٹیکل 49 مقبوضہ شہریوں کو ملک بدر کرنے یا اقتدار پر قبضہ کرنے کے ذریعے آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں پر پابندی عائد کرتا ہے۔ 5 اگست، 2019 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دے کر، بھارت نے جموں و کشمیر کے آبادیاتی اشراف کو تبدیل کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
ہمیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں مقبوضہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی طرح اسرائیلی پالیسی کا استعمال برداشت نہیں کرنا چاہئے، جہاں ہندوستانی ریاست نہتے کشمیریوں کو علاقے کی آبادی اور جغرافیہ حدوں کو تبدیل کرنے کے لئے کارروائی کرے۔
ہندوستان کی حکومت کی طرف سے کشمیر کی ”خودمختاری” کو منسوخ کرنے کا غیرمعمولی اقدام، ہندوستان میں آباد دیگر اقلیتوں کے لئے اہم پیغام ہے،اگر وہ مرکزی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہمت کریں تو جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کی طرح انہیں بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی کی فاشسٹ اور نازی ذہنیت نہ صرف جموں و کشمیر کے لوگوں بلکہ ہندوستان میں موجود دیگر اقلیتوں کے لئے بلکہ عالمی امن کے لئے بھی ایک خطرہ ہے۔ ہٹلر کے وقت میں 1938 میں دنیا نے دیکھا تھا،جس کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم اور یورپ کی تباہی ہوئی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہالوکاسٹ کی تاریخ اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے موجودہ خطرے کے پیش نظر، عالمی برادری اب بھی خاموش اور بے حس کیوں ہے؟ عالمی برادری کب اپنی خاموشی توڑے گی۔؟جب بہت بڑے پیمانے پر قتل عام ہوگا؟
پاکستان کے عوام مغربی دنیا کے جنگ سے نفرت کرنے والے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم کو نظر انداز کرنے سے باز آجائیں اور اپنی حکومت سے اس سنگین معاملے پر کارروائی کرنے کے لئے لابنگ اور احتجاج شروع کریں، کیونکہ آپ کو اندازا نہیں ہے کہ اگر جنگ ہوگئی تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
آخر میں، اس کا واحد حل یہ ہے کہ بھارت کو چاہئے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرے اور کشمیریوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے،یہاں تک کہ اگر وہ ایک آزاد ملک بننا چاہتے ہیں نہ کہ وہ پاکستان اور بھارت کا حصہ بن سکتے ہیں۔