زندگی کی ابتدا سے ہی ہمارے بارے میں مختلف اندازے لگا کر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ہمارا کردار کیا ہے اور ہمیں پہلے سے طے شدہ معیارات کے مطابق مختلف القاب دئیے جاتے ہیں۔ ہم بھی دیگر لوگوں کی لاشعوری طور پر ترجمانی کرنے لگتے ہیں اور خود کو سمجھاتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔
ایک طرح سے یہ ہمارا سکون کا علاقہ بن جاتا ہے کہ ہم کسی کی شناخت جان لیں اور اس کا کوئی نام رکھ لیں۔ فلاں شخص عجیب آدمی ہے، فلاں ذہین لڑکا ہے، فلاں خوبصورت ہے لیکن اس کا دماغ کمزور ہے، میں کھیلوں میں اچھا ہوں، میں باغی ہوں سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے، پھر میں شرماتا ہوں، میں بدل رہا ہوں جیسے الفاظ سامنے آتے ہیں اور جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں میں بینکر ہوں، میں یوگا ٹیچر ہوں، میں غیر شادی شدہ ہوں، میں موٹا ہوں یا میں سگریٹ نوش ہوں جیسے نئے القابات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔
مارکیٹنگ کے شعبے میں لوگوں کے گروہوں کی ڈیموگرافکس کے ذریعے درجہ بندی کی جاتی ہے اور مختلف لیبل لگائے جاتے ہیں تاکہ انہیں مصنوعات بیچی جاسکیں۔ مثال کے طور پر ابتدائی صارفین، بے بی بومرز اور ہزار سالہ جیسے القابات دئیے جاتے ہیں۔ یہ سارے القابات ہمارے کچھ کام کرتے ہیں۔ وہ ہمارے اعمال کا جواز پیش کرتے ہیں تاہم آخر میں ہماری حقیقی صلاحیتوں کے اظہار میں ایک رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔
ذرا تصور کیجئے کہ آپ نے کتنے القابات لاشعوری طور پر حاصل کیے ہیں، ان پر غور کرتے ہوئے پہچاننے کی کوشش کیجئے کہ واقعتاً آپ کون ہیں جبکہ اپنی ذات کے اظہار کیلئے آپ کو اس عمل کی پیروی کرنا ہوگی جو واقعی آپ کو کسی پیشے یا معاشرتی کردار کے کسی لقب میں بند کرنے کی بجائے آپ کے اپنے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
دراصل ہم سب کسی نہ کسی چیز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر افراد ان چیزوں کو ترس جاتے ہیں کیونکہ ہماری زندگی میں کسی نہ کسی وقت کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہوتی ہے۔ زندگی کا کوئی ایک یا سب ہی شعبے بعض اوقات محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ وقت گزارتے چلے جاتے ہیں، لمحے سال میں بدل جاتے ہیں اور سال دہائیوں میں تبدیل ہوتے ہیں لیکن ہمارے اندر کسی نہ کسی چیز کی کمی ضرور ہوتی ہے جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔
حتمی طور پر ایک دن آجاتا ہے جب ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے اپنی سوچ کو تبدیل کرتے ہیں۔ اس طرح ہم معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر جاگنے والے لمحے میں اپنی پہلی سانس سے لے کر آخری سانس تک ہم خود ہی اپنے مالک بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم جدوجہد کرتے ہیں کہ ہم زندگی کو اپنی مرضی سے گزار سکیں جس میں کوئی روک تھام اور کسی کی غلامی شامل نہ ہو۔
رابرٹ گرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ زندگی دوسروں پر انحصار کرتے ہیں تو آپ کے اندر زیادہ سے زیادہ خوف پیدا ہوتا ہے۔ زندگی میں ہر تدبیر کرتے ہوئے آپ کا ہدف ملکیت ہونا چاہئے۔