امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کے آخری ایام نہایت شرمندگی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں ، امریکی صدر نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کے بعد اپنی پارٹی کو آئین کی خلاف ورزی کرنے اور اپنی انتخابی شکست کو ختم کرنے پر اکسایا چونکہ امریکی کانگریس نے ان کی کال کی تردید کی اور انتخابی نتائج کی تصدیق کرنے کے لئے اجلاس شیڈول کیا گیا تھا ، ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ’مزاحمت‘ اور نتائج کے خلاف لڑنے کیلئے آمادہ کیا۔
ٹرمپ کے سیکڑوں حامیوں نے امریکی دارالحکومت پر دھاوا بول دیا اور اچانک کانگریس کو جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور کردیااورپولیس ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو روکنے میں ناکام رہی جس کے بعد واشنگٹن کو کرفیو نافذ کرنا پڑا۔
امریکی جمہوریت کی انتہائی قابل شناخت علامت پر حملے کی امریکی پارٹیوں اور پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ چار افراد ہلاک اور دو بارودی مواد برآمد ہوئے یہاں تک کہ اس خونی واقعہ نے ری پبلکن پارٹی کو ٹرمپ کی سرزنش بھی کرناتھی اور ان کے استعفیٰ دینے یا انہیں عہدے سے ہٹانے کے مطالبات بھی ہو رہے ہیں۔
سیکورٹی کی خلاف ورزی کیسے ہوئی اس پر بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جوبائیڈن کاکہنا ہے کہ واقعہ ناقابل قبول ہے کہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف نرمی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے فسادات کو امریکی تاریخ کا ایک “تاریک ترین دن” قرار دیا اور ٹرمپ کو تمام تر صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا،
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار چھوڑنے میں ابھی دو ہفتے باقی ہیںاور انہوں نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ وہ اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیںاس لئے یہ سوال باقی ہے کہ آگے کی راہ کیا ہوگی اور کیا اس سے سبق سیکھا جائے گا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت کیا دوبارہ ان کونامزد کریگی یا وہ سیاست سے دور ہوجائینگے۔
دو ہفتے بعد امریکا کے بدترین صدر قرارپانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کوعہدہ چھوڑنے کے بعد شائد اپنی غلطیوں کا احساس ہو لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے غلط فیصلوں اور ہوس اقتدار میں ناصرف امریکی تاریخ کو مسخ کیا ہے بلکہ امریکی قوم کو بھی تقسیم کردیا ہے۔