سلطنتِ قطر اور دیگر چار عرب ممالک کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہوئے، قطر کا بحران ختم ہوا جبکہ یہ مسئلہ گزشتہ 3 سال سے زیرِ التواء تھا اور دیگر ممالک نے قطر کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ جس خوش اسلوبی سے یہ بحران حل ہوا، اس سے مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلی کی ہواؤں کی پیشگوئی اور عرب اتحاد کی تصدیق ممکن ہوسکتی ہے۔
آج سے 3 سال سے زائد عرصے پہلے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات یہ الزام عائد کرتے ہوئے منقطع کردئیے کہ قطر دہشت گردی کا حامی ہے، انہوں نے قطر سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران سے اپنے دوطرفہ تعلقات منقطع کردے حالیہ مہینوں میں کویت اور امریکا نے سفارتی مسئلے کو ختم کرنے کیلئے کوششیں تیز کیں اور کئی ماہ کی گفت و شنید کے بعد آخر کار جی سی سمٹ میں یکجہتی و استحکام کا معاہدہ طے پایا۔ گزشتہ روز ہی سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنی زمینی، سمندری اور فضائی حدود کھولنے پر اتفاق کیا۔
طویل عرصے سے سلطنتِ قطر دیگر عرب ریاستوں کے مقابلے میں غیرت مندانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایران کا ساتھ دیتا ہے اور اخوان المسلمون اور حماس جیسے گروہوں کی حمایت کرتا ہے جس پر عرب ہمسایہ ممالک مشتعل ہوئے اور ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے بعد 2017ء میں ہی انہوں نے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا۔ قطر کی واحد زمینی سرحد بند کردی گئی۔ بہت سی بندرگاہوں پر جہازوں کو ڈاکنگ دینے پر پابندی عائد کی گئی اور فضائی حدود کو بند بھی کردیا گیا۔
قطر کے سامنے پابندیوں کے خاتمے کیلئے شرائط کے طور پر 13 مطالبات کی فہرست رکھی گئی تھی جس میں ایران کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا، ترکی کا اڈہ بند کرنا اور ایک عدد میڈیا چینل پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ ان مطالبات کو قطر نے اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے تمام تر شرائط مسترد کردیں جس کے نتیجے میں قطر ایران اور ترکی کے مزید قریب آگیا کیونکہ انہوں نے تجارتی راہیں کھولیں اور اپنی دولت معیشت کو ترقی دینے اور اس کا پہیہ چلتا رکھنے کیلئے استعمال کیا۔
شروع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تنازعے میں سعودی عرب کا ساتھ دیتے ہوئے قطر کو دہشت گردی کا مالی اعانت کار قرار دیا تاہم ان کا مؤقف نرم رہا۔ قطر خطے میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ رکھتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام فریقین پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ یہ تعطل ختم کردیں اور مل کر ایران کا مقابلہ کریں۔ کویت جو تنازعے میں غیر جانبدار رہا ہے، اس نے بھی یہ معاہدہ توڑ دیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پابندیاں ہٹانے سے کس طرح خطے میں پالیسیوں میں تبدیلی آتی ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ قطر اپنے تعلقات کو ایران یا ترکی کے ساتھ کم کرے کیونکہ تینوں ممالک نے ملائشیاء کے سابق وزیرِاعظم مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر خلیجی ممالک میں سفارتی تعلقات اور تنازعات سے قبل متوازی اقدامات اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
معاشی کشیدگی کے باعث خلیجی اتحاد کا تصور ٹوٹ چکا تھا جبکہ اب یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے تاہم بہت سارے ممالک، خصوصاً متحدہ عرب امارات کو اب بھی یہ شک ہے کہ قطر کہیں آگے چل کر اپنا راستہ نہ بدل دے، پھر بھی یہ خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے کہ چاروں عرب ممالک نے باہمی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا۔