مذہبی انتہاپسندی سے خطے کے امن کو خطرہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اور ہندوستان دونوں میں ایک چیز مشترک ہے اور یہ کہ دونوں ممالک میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک ہی دن ہوئے دو واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح دونوں ممالک افراتفری اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف گامزن ہیں۔

پہلا واقعہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں پیش آیا جہاں مشتعل ہجوم نے ایک مندرمیں  توڑ پھوڑ کی اور اس کے بعد اس کو نذر آتش کردیا گیا۔

ایک مذہبی جماعت سے وابستہ ہزار سے زیادہ افراد صدیوں پرانے مندر کو ہٹانا چاہتے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک عالم نے ہجوم کو بھڑکایا جس کے بعد ہجوم نعرے لگاتا ہوا مندر پر چڑھ دوڑا اور مندرکی دیواریں توڑ دیں اور ہندو برادری کے ایک مقامی ممبر کے گھر کو بھی نقصان پہنچا۔

سرحد کے دوسری طرف ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک ہندو دائیں بازو کی تنظیم کے کارکنوں نے رام مندر کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کے دوران ایک مسجد کو نقصان پہنچا یا جسے بی جے پی حکومت نے منہدم بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کیا ہے۔

کارکن جھنڈے اٹھا رہے تھے اور مسجد کے چاروں طرف نعرے بلند کررہے تھے۔ کچھ لوگ مسجد کے اوپر چڑھ گئے اور اس علاقے سے فرار ہونے والے مسلمانوں کے مکانات کو بھی نقصان پہنچایا۔

ان دونوں واقعات کے مابین مماثلت حیرت انگیز ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح دونوں ممالک میں اقلیتیں تیزی سے غیر محفوظ ہو رہی ہیں۔

صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں غیر محفوظ ہیں کیونکہ مودی حکومت ان اقوام کوہندو قوم میں تبدیل کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے اور خاص طور پر مذہبی انتہا پسندوں کے ہجوم دونوں ممالک میں اقلیتوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان تمام مکاتب فکر اور مذاہب کے لوگوں کے لئے محفوظ ہے اور اقلیتوں کو مساویانہ آزادی حاصل ہے لیکن اس ماہ کے شروع میں ہی پاکستان مذہبی آزادی کی منظم خلاف ورزیوں کے لئے امریکا کی طرف سے نامزدکردہ ممالک کی فہرست میں شامل تھا تاہم پاکستان نے ان الزامات اور دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ ہندوستان کے برعکس اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے کام کررہا ہے جہاں ان کی شہریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے اور یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں ہر سال مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی تقریبا 1000 سے زائد لڑکیوں کو جبری اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

حکومت فرقہ پرستی اور مذہبی انتہاپسندی کی تردید تو کرتی ہیںلیکن نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کارروائیاں بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں جن سے انکار ممکن نہیں اور یہی شرپسند عناصر صرف متعلقہ ممالک کا نہیں بلکہ پورے خطے کا امن داؤ پر لگارہے ہیں۔

Related Posts