نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن، پاک بھارت تعلقات اور لمحہ لمحہ بدلتی عالمی صورتحال

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن، پاک بھارت تعلقات اور لمحہ لمحہ بدلتی عالمی صورتحال
نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن، پاک بھارت تعلقات اور لمحہ لمحہ بدلتی عالمی صورتحال

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف صدارتی انتخابات لڑ کر کامیاب ہونے والے جو بائیڈن ریاستہائے متحدہ امریکا کے 46ویں صدر ہوں گے جن کی کامیابی کو عالمی سطح پر لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر وسیع تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء کا امن و استحکام بھی پورے براعظم پر بالخصوص اور ساری عالمی برادری پر بالعموم اثر انداز ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ پاک بھارت تعلقات وقت کے ایک نازک موڑ پر نظر آتے ہیں۔

الیکٹورل کالج نے تصدیق کی ہے کہ جو بائیڈن نے ٹرمپ کے 232 الیکٹورل ووٹس کے مقابلے میں 306 ووٹس حاصل کرکے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں بطور صدرِ مملکت قیام کا قانونی حق حاصل کر لیا ہے۔ آئیے پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں جو بائیڈن کی کامیابی کے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہیں۔

جو بائیڈن کون ہیں؟

سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں امریکا کیلئے نائب صدر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے جو بائیڈن ایک معاملہ فہم اور زیرک سیاستدان ہیں جو سن 1973ء میں امریکی سینیٹ کے رکن بنے۔

سن 2009ء سے ل کر 2017ء تک امریکا کے 74ویں نائب صدر جو بائیڈن مختلف سرکاری دوروں کے سلسلے میں متعدد مرتبہ پاکستان آچکے ہیں اور سن 2008ء میں انہیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ پاکستان کا اعزاز بھی عطا کیا تھا۔

صدارتی حلف لینے والے جو بائیڈن 78 برس کی عمر میں امریکا کے معمر ترین صدر بنیں گے لیکن اگر یہ اعزاز ٹرمپ کو ملتا تو وہ بھی 74 برس کے معمر ترین صدر ہوتے۔ جو بائیڈن امریکی سیاست کے پرانے کھلاڑی مانے جاتے ہیں۔

کم و بیش 50 برس سے امریکی سیاست میں مسلسل متحرک جو بائیڈن  اپنی ذاتی زندگی میں مختلف اتار چڑھاؤ اور تلخیاں دیکھ چکے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ 

نو منتخب امریکی صدر کی زندگی اور صدمات 

ذاتی زندگی میں بارہا جو بائیڈن کو صدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1972ء میں جب جو بائیڈن نے سینیٹ کا پہلا انتخاب جیتا تو ایک اندوہناک کار حادثے کے نتیجے میں ان کی بیگم اور چھوٹی بیٹی چل بسی تھی۔

ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ان کے 2 بیٹے بھی زخمی ہوئے اور سینیٹ کی رکنیت کا حلف جو بائیڈن نے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ہسپتال سے لیا جسے ایک ذمہ دار والد ہونے کا ثبوت قرار دیا جاسکتا ہے۔

آج سے 5 سال قبل  نو منتخب امریکی صدر کا کینسر میں مبتلا بیٹا بیو بائیڈن چل بسا جسے سیاستدانوں نے انتہائی تشویش کی نظر سے دیکھا کیونکہ بیو بائیڈن بھی سیاست کے میدان میں چند کامیابیاں اپنے نام کرچکا تھا اور ممکنہ طور پر ریاستی گورنر بننے والا تھا۔

ٹرمپ کے مقابلے میں منکسر المزاج

خوش اخلاقی اور منکسر المزاجی کے حوالے سے جو بائیڈن کو اہم سیاستدان سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک عوامی اور ملنسار شخصیت مانے جاتے ہیں۔ عوام میں جلد گھل مل جانا ان کی اہم خاصیت ہے۔

عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھنے والے جو بائیڈن 3 بار امورِ خارجہ سے متعلق سینیٹ کی طاقتور کمیٹی کے چیئرمین رہے اور یہی تجربہ آگے چل کر انہیں نائب صدر کا امیدوار بنانے میں معاون ثابت ہوا۔

طاقت کی بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینے والے جو بائیڈن امریکا کیلئے ایک بہتر صدر ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں یہ کمزوری تھی۔ جو بائیڈن پاکستان کے دورے کرنے کے بعد یہاں کے امور سے بخوبی واقف ہیں۔ 

پاکستان کے بارے میں جو بائیڈن کے خیالات 

گزشتہ 30 برس کے دوران جو بائیڈن نے پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں سمیت اعلیٰ ترین سیاسی و عسکری قیادت سے براہِ راست رابطے کیے۔ ری پبلکنز کے ساتھ مل کر جو بائیڈنن نے 2008ء میں اربوں ڈالر امداد کا پیکیج بھی تیار کیا تھا۔

کیری لوگر بل کی منظوری بارک اوباما نے 2009ء میں دی جو بائیڈن کی بجائے وزیرِ خارجہ جان کیری کے نام سے اِس لیے منسوب کیا گیا تھا کیونکہ جو بائیڈن نائب صدر منتخب ہوچکے تھے۔

سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما یوسف گیلانی کے دور میں جو بائیڈن سے بطور امریکی نائب صدر یہ سوال کیا گیا کہ امریکا پاکستان کا اتحادی ہونے کے باوجود بار بار قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کیوں کرتا ہے؟

نائب صدر جو بائیڈن نے کہا کہ میں اپنے 30 برس کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ملکی دفاع میں پاک فوج کا کردار زبردست ہے۔ یہاں بیٹھے انتہا پسند ملک کا نام خراب کرنے کیلئے جرائم کرتے ہیں۔ امریکا پاکستان کی خودمختاری بحال کرنا چاہتا ہے۔

چین کیلئے پریشان کن 

دوسری جانب جو بائیڈن پاکستان کے ہمسایہ اور عظیم دوست ملک چین کیلئے پریشان کن ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ٹرمپ امریکا میں تفرقہ بازی، عالمی برادری میں تنہائی اور اثر رسوخ اور طاقت میں کمی کا سبب تھے اور جو بائیڈن ایسے صدر نہیں ہوں گے۔

تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین کیلئے جو بائیڈن ایک چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں جو امریکا کے تعلقات کو سفارتی سطح پر ایک نئے دور میں داخل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ 

بھارت کیلئے متوازن 

قیامِ پاکستان کے وقت سے اب تک پاکستان کے مستقل مزاج دشمن بھارت کی نریندر مودی حکومت کیلئے جو بائیڈن ذاتی طور پر تو سرد مہری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن خارجہ امور میں امریکا کی استقلال پسند پالیسی متوقع طور پر وہی رہے گی جو ٹرمپ دور میں رہی۔

جمہوریہ بھارت طویل عرصے سے امریکا کا اتحادی رہا اور مجموعی طور پر جو بائیڈن کے عہدِ صدارت کے دوران خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق یہ باہمی تعلقات کسی زیادہ بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے۔

امریکا چاہتا ہے کہ عالمی طاقت بننے والے چین کا اثر رسوخ جنوبی ایشیاء سے بتدریج ختم کیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے جس میں سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک بھارت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مسئلۂ کشمیر اور پاک امریکا تعلقات 

وطنِ عزیز پاکستان وزیرِ اعظم عمران خان کی سرکردگی میں ترقی کی نئی منازل طے کر رہا ہے۔ عمران خان نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بھی امداد کی بجائے سرمایہ کاری کی دعوت دی جس سے عالمی برادری میں پاکستان کا نیا تشخص اجاگر ہوا۔

یہ بات جو بائیڈن سمیت امریکی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد کو پٌسند آئی اور ٹرمپ سے وزیرِ اعظم عمران خان کی ملاقات اور پاک امریکا تعلقات کو ایک منفرد انداز سے دیکھا گیا۔

مسئلۂ کشمیر پاکستان نے اتنا اجاگر کیا کہ صدر ٹرمپ نے متعدد مرتبہ اس کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کر ڈالی اور نو منتخب صدر جو بائیڈن بھی مسئلۂ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں۔

بغیر لگی لپٹی رکھے بیانات دینے کے عادی جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کی ویب سائٹ پر کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے این آر سی نامی بھارتی کالے قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

بائیڈن حکومت کی نو منتخب نائب صدر کیملا ہیرس آدھی بھارتی ہونے کے باوجود نریندر مودی حکومت کی کچھ پالیسیوں کے خلاف رائے دے چکی ہیں۔

عالمی سطح پر پاک بھارت تعلقات کی اہمیت اور امریکا 

واضح رہے کہ جو بائیڈن ایسے وقت میں امریکا کے صدر کے طور پر حلف اٹھائیں گے جب پاک بھارت تعلقات اپنے بد ترین دور کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ بھارت کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں اور پاکستان بھارتی دہشت گردی کے ثبوت اقوامِ متحدہ کے حوالے کرچکا ہے۔

ایسے میں جو بائیڈن امریکی صدر کے طور پر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے بند باندھنے کے ساتھ ساتھ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کو روکنے کا سبب بن سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ امریکا سے پاکستان کے تعلقات بھی ایک نئے دور میں داخل ہوں۔ ایک ایسا دور جس میں ایٹمی جنگ کے خطرات نہ ہوں اور ہر ملک کی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔ 

Related Posts