بھارت میں بابری مسجد کی شہادت اور مسلم کش فسادات کی تکلیف دہ تاریخ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارت میں بابری مسجد کی شہادت اور مسلم کش فسادات کی تکلیف دہ تاریخ
بھارت میں بابری مسجد کی شہادت اور مسلم کش فسادات کی تکلیف دہ تاریخ

ہمسایہ ملک بھارت قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی مسلمانوں کا دشمن ثابت ہوا جہاں بابری مسجد کی شہادت مذہب کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے تعصب اور شدت پسندی کی بد ترین مثال ہے۔

آج سے ٹھیک 28 سال قبل یعنی 1992ء میں بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں نے شہید کردیا جس کے بعد مسلم کش فسادات کی تکلیف دہ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جو 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت سے ہی وقفے وقفے سے جاری رہے ہیں۔

آئیے بابری مسجد کی شہادت اور مسلم کش فسادات کے حوالے سے مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ متعصب ہندو مسلمانوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں اور اگر بھارت کا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ درست ہے تو وہاں مسلمانوں کو آزادی سے عبادت کا حق کیوں نہیں دیاجاتا؟ اور ان کی تاریخی عبادت گاہ کیوں شہید کی گئی؟

بابری مسجد کی شہادت

مغل حکمران ظہیر الدین بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک مانی جاتی ہے جسے میر باقی نے تعمیر کرایا اور 9 نومبر 2019ء بھارتی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب بھارتی سپریم کورٹ نے مسجد کے انہدام کے حق میں فیصلہ سنایا۔

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے سنگِ بنیاد رواں برس 5 اگست کو رکھا گیا تھا۔ قبل ازیں یہ مسجد بی جے پی کے مرکزی رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں متعصب مذہبی تنظیموں کے ہاتھوں ایودھیا میں مسمار ہوئی جہاں نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں جوان موجود تھے۔

بعد ازاں ممبئی اور دہلی سمیت بھارت میں کم و بیش 2 ہزار مسلمان ہندو مسلم فسادات میں قتل کردئیے گئے۔ ہندو کہتے ہیں کہ بابری مسجد رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی ہے جبکہ مسلمان یہ نظریہ نہیں مانتے۔مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں سمیت مجموعی طور پر 3 ہزار افراد کی جانیں فسادات کی نذر ہو گئیں جو اپنے آپ میں ایک تاریخی المیہ ہے۔ 

سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ اور انسانی جانوں کی اہمیت

سن 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی آبادی 1 ارب 35 کروڑ 30 لاکھ نفوس سے زائد ہے جبکہ بھارت کی نریندر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں۔

ویسے تو عوامی جمہوریہ چین کی آبادی بھارت سے زیادہ ہے تاہم چین میں جمہوریت کس حد تک رائج ہے، اسے عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیاجاتا ہے، جس کے بعد بھارت اس دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کا دعویٰ کرتا نظر آتا ہے۔

جمہوریت میں انسانوں کی جانوں کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ جمہوریت کا مطلب ہی عوام کی حکمرانی ہوتا ہے لیکن ہمسایہ ملک بھارت میں انسانی خون پانی سے بھی سستا ہے جو کوڑیوں کے مول بہایا جاتا ہے۔

دہلی کے مسلم کش فسادات 

رواں برس 23 فروری کے روز سے شروع ہونے والے دہلی کے مسلم کش فسادات بھارت کا تازہ ترین واقعہ کہے جاسکتے ہیں جس کے دوران 53 افراد کو قتل کردیا گیا جن میں سے 2 تہائی مسلمان تھے۔

مسلمانوں کو گولیاں مار کر، بد ترین تشدد کا نشانہ بنا کر یا پھر زندہ جلا کر قتل کردیا گیا جبکہ قتل ہونے والے افراد میں ایک پولیس اہلکار، ایک انٹیلی جنس آفیسر اور 1 درجن کے قریب ہندو بھی شامل تھے۔

مارچ کے وسط تک بہت سے مسلمانوں کو لاپتہ کردیا گیا جس کی وجوہات بھارتی نریندر مودی حکومت ہی بتا سکتی ہے تاہم یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی جان و مال اپنی اہمیت اور قیمت کھو چکے ہیں۔ 

مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ 

جمہوریہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور بفرضِ محال یہ بات مان لی جائے تو یہ بھارت کا وہ حصہ ہوسکتا ہے جہاں ہندو مسلم فسادات ہر روز ہوتے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی شخص کو اسلام کے نام پر قتل یا وحشیانہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔

کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگانے والے مظلوم کشمیری آج بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں اور عالمی برادری کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ کب ظلم و جبر کی یہ سیاہ رات کٹے گی اور آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔

وزارتِ خارجہ کا بیان

پاکستان میں ترجمان دفترِ خارجہ نے بابری مسجد کی شہادت کے 28 برس مکمل ہونے پر اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی شہادت نام نہاد جہموریہ بھارت کے وجود پر سیاہ دھبے کی مانند ہے۔

ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا گیا جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نے ایک ناقص فیصلہ کرکے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی۔

دفترِ خارجہ نے کہا کہ بھارت میں آج بھی ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور مساجد پر حملوں میں ملوث ہیں۔ آج کا دن بابری مسجد کی شہادت کا غم یاد دلاتا ہے جو نہ صرف مسلمانوں  بلکہ باشعور عالمی برادری کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔

فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت 

بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کیلئے وہ المناک حقیقت ہے جو رہتی دنیا تک کیلئے بھلائی نہیں جاسکتی تاہم 1857ء سے لے کر 1947ء تک اور پھر بابری مسجد کی شہادت تک کم و بیش 10 لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔

یہ لاکھوں مسلمان جو بغیر جنگ کیے جاں بحق ہوئے، اس کی مثال بغداد میں تاتاریوں کے حملے کے بعد سب سے بڑی قرار دی جاسکتی ہے جو خود کو سیکولر کہنے والے بھارت کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ 

اتحاد بین المسلمین کی ضرورت

تعداد کے اعتبار سے مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب قرار دیا جاتا ہے کیونکہ دنیا کی 31 اعشاریہ 2 فیصد آبادی مسیحی مذہب کی پیروکار ہے جس کے بعد اسلام کا نمبر آتا ہے۔

دنیا کے 24 اعشاریہ 1 فیصد افراد مسلمان ہیں جبکہ ہندومت تعداد کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ دنیا کی 15 اعشاریہ 1 فیصد آبادی ہندو، 6 اعشاریہ 9 فیصد بدھ مت جبکہ 5 اعشاریہ 7 فیصد مقامی مذاہب کو ماننے والی ہے۔

دنیا کے کم و بیش 50 ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ دنیا کے تقریباً 2 ارب لوگ مسلمان جبکہ ڈیڑھ ارب لوگ ہندو ہیں، سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب ہندو 2 ارب مسلمانوں پر کیسے غالب آگئے؟

اسلامی تاریخ کی پہلی قابلِ ذکر جنگ غزوۂ بدر میں 313 مسلمانوں نے کم و بیش 1 ہزار بت پرست کافروں کو شکست دی تھی۔ آج بھی مسلمان اور بت پرست قوم یعنی ہندوؤں کے درمیان کسی نہ کسی صورت میں جنگ جاری ہے۔ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 

Related Posts