پیپلزپارٹی کیلئے لاڑکانہ کا دفاع بھی مشکل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لاڑکانہ کبھی پیپلزپارٹی کاگڑھ ہوتاتھامگراب یہ ریت کی طرح ان کے ہاتھوں سے پھسل رہاہے، جمعیت علماء اسلام کے نوجوان اورمتحرک رہنماء علامہ راشدمحمود سومرو پیپلزپارٹی کے لیے ان کے آبائی گھرمیں چیلنج بن چکے ہیں ۔

علامہ راشدمحمود سومروصرف لاڑکانہ میں ہی نہیں پورے سندھ میں مزاحمت کی سیاست کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سندھ کے عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اسی محبت کااظہارمجھے میونسپل اسٹیڈیم لاڑکانہ میں اس وقت دیکھنے کوملاجب میں 13سوکلومیٹرسے زائدکافیصلہ طے کرکے اسلام آبادسے لاڑکانہ پہنچاتووسیع وعریض اسٹیڈیم ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندرکامنظرپیش کررہاتھا ،شرکاء کاجوش بھی دیدنی تھا۔

یہ کانفرنس ڈاکٹرخالدمحمودکی یادمیں منعقدتھی، ڈاکٹرخالدمحمود سومر24سال تک جمعیت علماء اسلام سندھ کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے ، دومرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹوکیساتھ کانٹے کا انتخابی مقابلہ کیا اور2006سے 2012 تک سینیٹ کے ممبربھی رہے۔

ڈاکٹرخالدمحمود سومروکو 29 نومبر2014 کوسکھرگلشن اقبال میں ان ہی کے قائم کردہ مدرسہ حقانیہ کی مسجدمیں فجرکی سنتیں اداکرتے ہوئے شہید کردیا گیاتھا ۔راشدسومرواوران کے بھائی ناصرسومرو اپنے والدکے قاتلوں کوسزادلوانے کے لیے عدالتی چارہ جوئی میں مصروف ہیں مگرحالت یہ ہے کہ اس مقدمے کی 220سے زائدسماعتیں ہوچکی ہیں جن میں سے ڈیڑھ سومرتبہ اگلی تاریخ دے دی گئی۔

علامہ راشدسومرو اوران کے بھائی انصاف کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے والدکے مشن کوبھی آگے بڑھارہے ہیں۔

شہیداسلام کانفرنس میں ڈاکٹرخالدکے چاہنے والے دیوانہ وارچلے آئے تھے دن گیارہ بجے ہی میونسپل گرائونڈ کا وسیع وعریض میدان بزبان حال اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتے نظر آرہاتھا ۔

چہار سو انسان ہی انسان نظر آرہے تھے ،میونسپل گراؤنڈکے چاروں طرف سڑکیں لوگوں سے کھچا کھچ بھرئی ہوئی تھیں جبکہ ریلوے لائن پر بھی تاحد نظرسرہی سر نظر آرہے تھے۔ انصارالاسلام کے رضاکاراحسن طریقے سے سیکورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

ریلوے لائن کے دوسری جانب جناح باغ تک لوگوں نے لا ؤڈا سپیکر کے ذریعے قائدین کے بیانات سن رہے تھے ،میں جے یوآئی راولپنڈی کے رہنماء مفتی مسرت اقبال اسٹیج پربیٹھے دیکھ رہے تھے کہ شہیداسلام کانفرنس میں شرکت کے لیے قافلے مغرب کے بعدتک آرہے تھے ۔

اس وقت شعائراسلام کوشدیدسنگین خطرات لاحق ہیں ،مساجدومدارس ،تعلیمی نصاب وختم نبوت کے حوالے سے جب بھی کوئی اقدام سامنے آتاہے توعلامہ راشدسومروکھل کرسامنے آتے ہیں، چنددن قبل ہی ابھی سکھر میں مولانا راشد محمود سومرو نے اپنے اکابرین مولاناتاج محمودامروٹی ،مولانا حماد اللہ ہالیجوی ، مولانا عبدالکریم قریشی کی یاد تازہ اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہوئے مساجد کا مقدمہ بڑی بہادری سے لڑا ہے۔

تجاوزات کی آڑمیں مساجدکوشہیدکردیاگیا توعلامہ راشدمحمود سومروانتظامیہ کے جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور ان کے اس قدم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور بھرپور دلائل کی روشنی میں کیس جیت لیا ۔

عدالت نے انتظامیہ کو مزید مساجد مسمار کرنے سے روک کر شہید مساجد کی از سر تعمیر کا حکم دیا ۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نے شہیداسلام کانفرنس میں تاریخی خطاب کیاجس میں انہوں نے ان واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ عجیب دور آگیا ہے کہ جس دور میں پاکستان کی نظریاتی شناخت ختم کی جارہی ہے ،دنیا میں ہمارا اسلامی تعارف ختم کیا جارہا ہے اور اسلام کے خوبصورت چہرے کو داغ دار کرنیکی کوشش کررہے ہیں۔

میں اب بھی کہنا چاہتا ہوں کہ قادیانی پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان اور اس کی پارلیمنٹ اپنا فیصلہ واپس لیںمیں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں طاقتور سے طاقتور قوت سے کہنا چاہتا ہوں، طاقتور سے طاقتور ادارے سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان کہلانے کیلئے ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا۔

ہم وطن عزیزاور سرزمین پاکستان پر غلام بن کر رہنے کیلئے پیدانہیں ہوئے، ہماری ماؤں نے ہمیں غلام نہیں جنا ، ہمارے اسلاف کی آزادی کیلئے قربانیوں کی تاریخ ہے، ہم نہ ہی اپنے اسلاف کے سامنے شرمندہ ہوناچاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے آنے والی نسلوں کیلئے شرمندگی چھوڑنا چاہتے ہیں ۔

کانفرنس کے اختتام پرلاڑکانہ شہرمیں ڈاکٹرخالدمحمودکے قائم کردہ عالی شان مدرسہ دیکھا اوروہاں سے ایک سال میں پیپلزپارٹی کودومرتبہ شکست دینے والے ممبرصوبائی اسمبلی اورمعروف سیاستدان بیگم اشرف عباسی کے پوتے معظم علی عباسی کے اوطاق (بیٹھک )میں ان سے ملاقات کی 2018کے الیکشن میں جی ڈی اے پلیٹ فارم سے معظم علی عباسی نے کامیابی حاصل کی عدالت نے انہیں نااہل کیا اگلے سال پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں ضمنی الیکشن ہواتومعظم علی پی پی امیدوارکوشکست دے کردوبارہ کامیاب ہوگئے ۔

لاڑکانہ ایک طویل عرصے سے پاکستان کی سیاست کا محور رہا ہے۔ گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو اور دیگر شہدا کے مزارات پاکستان میں سیاسی مزاحمت کا قلعہ اور نظریاتی سیاست کا سرچشمہ ہیںمگرپیپلزپارٹی میں اب مزاحمتی اور نظریاتی سیاست دم توڑتی نظرآرہی ہے ۔

سکھرسے لاڑکانہ جاتے ہوئے ہم نے دیکھاکہ جے یوآئی کے پرچموں سے سجی گاڑیاںدائیں جانب مڑرہی ہیں میں نے اپنے میزبانوں محمدعلی عباسی اوراشفاق احسن بھٹوسے پوچھا کہ ہم لاڑکانہ پہنچ گئے ہیں توانہوں نے بتایاکہ نہیں یہ گڑھی خدابخش ہے جہاں بھٹوخاندان کے شہداء مدفون ہے ہم جب ان مزارات پرپہنچے توجمعیت علماء اسلام کے درجنوں کارکن فاتحہ خوانی کررہے تھے ہم نے بھی ذوالفقارعلی بھٹو،بے نظیربھٹو،مرتضیٰ بھٹواورشاہنوازبھٹوکی قبروں پرحاضری دی فاتحہ خوانی کی ۔

بھٹوخاندان سے تعلق رکھنے والے اشفاق احسن بھٹوکی وجہ سے ہمیں مزارکااوپروالاحصہ بھی دکھایاگیا ۔مزارسے نکلنے کے بعد نوڈیروکی حالت زاردیکھنے کے بعد یہ سوچنے پرمجبورہوئے کہ پیپلزپارٹی کاگڑھ ہونے کے باوجود لاڑکانہ ترقی کے راستے پرگامزن نہ ہوسکا ۔

سندھیوں کی اکثریت کا پاکستان پیپلز پارٹی سے ماضی کا جذباتی تعلق اور لگاؤ اب دم توڑ رہا ہے۔ یہ جذباتی سیاسی وابستگی بے نظیر بھٹو تک ہی قائم رہی اگرچہ بلاول بھٹوکوشش کررہے ہیں کہ اسی جذباتی وابستگی کوبرقراررکھاجائے مگرعوام اپناسیاسی قبلہ تبدیل کررہے ہیں اورعلامہ راشدمحمود سومروجیسے نوجوانوں کے آئیڈیل بن کرابھررہے ہیں۔

لاڑکانہ میں کئی نوجوان ملے جوراشدسومروکے بے باکانہ کردارسے متاثرہیں، چانڈکامیڈیکل کالج میں زیرتعلیم کشمیری طلباء کے وفدکی ہمایوں عباسی کی سربراہی میں جب ملاقات ہوئی توانہوں نے بھی بتایاکہ یہاں علامہ راشدسومرونوجوانوں کے مقبول رہنماء ہیں ۔

بلاول بھٹو اورراشدسومروتقریباً ہم عمرہی ہیں، بلاول بھٹو کی عمر33سال ہے توراشدسومروکی عمر37سال ہے مگرفرق یہ ہے کہ راشدسومرولاڑکانہ کے عوام کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے دکھ دردمیں شریک ہوتے ہیں ان کے دروازے پرکوئی دربان نہیں اس وجہ سے انہیں پذیرائی مل رہی ہے جبکہ بلاول بھٹوکبھی کبھی لاڑکانہ کے دورے پرآتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ راشدسومرومشرقی تہذیب کا علمبردار، اسلامی ثقافت و روایات کا امین، غریبوں کا ساتھی، کسانوں اور ہاریوں کا غم خوار، سندھی کلچر کا پاسبان بن کرسامنے آرہاہے ، گزشتہ الیکشن میں راشدمحمودسومرونے بلاول بھٹو کے مقابلے میں پچاس ہزارسے زائدووٹ خطرے کی گھنٹی بجادی تھی یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو لاڑکانہ کے ساتھ ساتھ اگلے الیکشن میں قمبرشہدادکوٹ سے بھی الیکشن میں حصہ لینے کاپروگرام بنارہے ہیں۔

Related Posts