عصمت دری کے قوانین کا نفاذ بڑا چیلنج ہے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت نے دو آرڈیننسز کی منظوری دے دی ہے جس کا مقصد ملک میں خواتین اور بچوں کے خلاف عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے کیمیائی کیسٹریشن اور پھانسی سمیت مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینا ہے۔

وزیر اعظم نے پہلے بھی عصمت دری کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب کیمیکل کیسٹریشن کا قانون متعارف کرایا جارہا ہے ‘بنیادی طور پر یہ سزا صرف مجرم کی رضامندی اور عدالت کی صوابدید کے ساتھ دی جائے گی۔

مجرم اگر کیسٹریشن سے انکار کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف مجرمانہ قوانین کے تحت قانونی چارہ جوئی کی جائے گی جس میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ کسی مجرم کے اعضاء کو ناکارہ کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ورنہ وہ سزا کو عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے۔

حکومت نے عصمت ریزی سے متعلق قانون سازی کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے ، اس قانون سازی نے عصمت دری کی تعریف کو تبدیل کردیا ہے اور اس کی مدت میں ہر عمر کی خواتین کو شامل کردیا گیا ہے۔اس آرڈیننس کو قانون بنانے سے پہلے ہی اس پر بحث کرنا ضروری ہے۔

اس آرڈیننس کے تحت خصوصی عدالتوں اور انسداد عصمت دری روکنے کیلئے تھانوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ ایف آئی آر ، طبی معائنہ ، فرانزک تجزیہ کو یقینی بنایا جاسکے اور یہ قانون ہتک آمیزدو انگلیوں والے کنوار پن کے ٹیسٹ کو ختم کردے گا اور مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم کے ذریعہ متاثرہ شخص کی جانچ پڑتال پر پابندی ہوگی۔

یہ قانون ان کیمرہ ٹرائل کے ذریعہ عصمت دری کا شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے ،ان اقدامات کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے جوجلد از جلد مقدمات چلانے اور انصاف کی فراہمی کا باعث بن سکتے ہیں۔

حکومت نے نادرا اور عوامی رپورٹنگ میکانزم کے توسط سے جنسی مجرموں کی رجسٹری کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ایسے مجرموں کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے جو معاشرے کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس کو سزا یافتہ پیڈو فائل سہیل ایاز کے معاملے میں دیکھا گیا جو مجرمانہ ریکارڈ رکھنے کے باوجود سرکاری محکمہ میں اعلیٰ سطح کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

حکومت کو جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا وہ مجوزہ قانون کانفاذ ہے۔ کیمیائی کیسٹریشن ایک پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے اور یہ بھی فوری حل نہیں ہے۔

ضروری ہے کہ عصمت دری کے شکار افراد کو جلد انصاف فراہم کرنے کے لئے تفتیش میں بہتری لائی جائے۔ عصمت دری ایک معاشرتی برائی ہے جسے پلک جھپکتے ہی ختم نہیں جاسکتا اور جب کہ رہنما سخت قوانین بناناچاہتے ہیں لیکن انہیں ایسے قوانین منظور نہیں کرنا چاہئیں جو صورتحال کو مزید خراب کردیں۔

Related Posts