کیویز کے دیس میں ٹی ٹوئنٹی سیریزقومی ٹیم کا اصل امتحان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پاکستان کرکٹ ٹیم کورونا وائرس کے خدشات کے باوجود کیویز کے دیس میں ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز کھیلنے کیلئے روانہ ہوچکی ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے ہیرو بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی شاہین نیوزی لینڈ کیخلاف فتح کیلئے پرعزم ہیں لیکن اگر ٹی ٹوئنٹی سیریز کے حوالے سے دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو دونوں حریف برابر دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کی ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ نوجوان باصلاحیت نہیں ہیں بلکہ قومی ٹیم ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل کھلاڑی پاکستان سپر لیگ میں بھرپور کھیل کا مظاہرہ کرنے کے بعد نیوزی لینڈ پہنچے ہیں اور یہ سیریز ماضی کے برعکس زیادہ کانٹے دار ہوگی اور خالی میدان میں کھلاڑیوں کا جوش و جذبہ ہی شائقین کا لہو گرمائے گا۔

اگر ماضی پر نگاہ ڈالی جائے تو گرین شرٹس کیویز اور کینگروز کی سرزمین پر زیادہ موثر کھیل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ یہاں کی باؤنسی وکٹس پر ٹھہر کر رنز بنانا پاکستان ہی نہیں تمام ایشیائی ٹیموں کیلئے مشکل رہا ہے کیونکہ ایشیاء میں گرم موسم میں کھیلنے والے کھلاڑی جب سرد موسم میں تیز وکٹوں پر کھیلتے ہیں تو ان کو شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔

اس سے پہلے آسٹریلیا اور انگلستان کے دوروں پر نظر ڈالی جائے تو قومی ٹیم کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائی جس کی بنیادی وجہ تیز باؤنسی وکٹ اور موسم کی تبدیلی ہے جب تک ہمارے کھلاڑی ماحول اور وکٹوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تب تک سیریز ختم ہوچکی ہوتی ہے۔

ابھی حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ اور پی ایس ایل کے پلے آف میچز میں جن کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ پرفارمنس اپنے ہوم گراؤنڈ پر تھی جہاں کی وکٹیں انتہائی سست ہیں جہاں گیند آہستہ آتا ہے اور رنز بنانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا لیکن اس کے برعکس آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی وکٹیں بہت تیز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے بلے باز بمشکل رنز بناپاتے ہیں۔

1952میں ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے کے بعد سے آج تک پاکستان میں ہمیشہ مردہ وکٹیں تیار کی جاتی ہیں جہاں ڈومیسٹک سیریز میں تو رنز کے انبار دکھائی دیتے ہیں اور اس کے برعکس پاکستانی وکٹوں پر بڑی بڑی اننگز کھیلنے والے بیرون ملک جاکر بیٹنگ کرنا ہی بھول جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ سپورٹنگ وکٹیں بنانا ہے۔

اس کی ایک بڑی مثال فواد عالم ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں لیکن ان کو بیرون ملک باری دی جائے تو وہ رنز بنانا بھول جاتے ہیں کیونکہ مردہ وکٹوں پر کھیل کھیل کر ان کا میزاج تبدیل ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک ہمارے بیٹسمین ہمیشہ بغلیں جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ سیریز کے انعقاد سے قبل ہمیشہ ہر معاملے میں شش و پنج کا شکار رہا ہے، کبھی قیادت کا معاملہ درپیش آجاتا ہے تو کبھی کوئی اسکینڈل راہ دیکھ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بورڈ سیریز پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے دیگر مسائل کے گرداب میں الجھا رہتا ہے ۔

حالیہ دورہ نیوزی لینڈ پہلے سے طے تھا اور کراچی کا موسم بھی پی ایس ایل کے پہلے آف مرحلے کے وقت کسی حد تک ٹھنڈا ہوچکا تھا اس لئے پی سی بی موسم سے ہم آہنگ وکٹیں تیار کرکے نیوزی لینڈ کے دورہ کی پیش بندی کرتا سکتا تھا لیکن یہاں بھی ہم نے دیکھا کہ مقابلوں میں رنگ بھرنے کیلئے بے جان وکٹیں بناکر شائقین کو چوکوں چھکوں سے تو محظوظ کیا گیا لیکن ان بلندوبالا چھکوں یا رنز کے انبار سے ہمیں عالمی کرکٹ میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اگر اسکواڈ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو کہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور کپتان بابر اعظم اور ان کے نائب شاداب خان دونوں ٹی ٹوئنٹی کے اچھے کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ دورہ نیوزی لینڈ میں ان دونوں کھلاڑیوں کی ذاتی پرفارمنس اور قائدانہ صلاحتیں پاکستان کے کام آتی ہیں یا نہیں اور دونوں میڈیا کے تند و تیز سوالات کا سامنا کیسے کرتے ہیں کیونکہ ماضی میں بڑے بڑے کپتان قیادت کے بوجھ اور پرفارمنس کے پریشر کی وجہ سے ہمیشہ کیلئے تاریکیوں میں گم ہوچکے ہیں۔

Related Posts