ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال مزید خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور سردیوں کے آغاز پر ملک میں روزانہ 2 ہزار سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہورہے ہیں ،اسپتالوں میں ایک بار پھر کورونا مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کورونا کا بڑا مرکز بننے جارہا ہے۔
حکومت نے وباء کو پھیلنے سے روکنے کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جن میں انڈور شادیوں پر پابندی اور سینما گھروں ، تھیٹروں اور مزارات کو بند کرنا شامل ہے چونکہ بچوں میں کیسز کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوا ہے اس لئے حکومت نے سردیوں کی تعطیلات کے بعد تمام تعلیمی اداروں کو ایک ماہ کے لئے بند رکھنے کا فیصلہ کیاہے یہ فیصلہ سخت تھا کیونکہ طلباء نے زیادہ تر سال تعلیم حاصل نہیں کی ہے اور دوبارہ چھٹیوں کا فیصلہ انھیں تعلیمی لحاظ سے متاثر کرسکتا ہے لیکن بچوں کی صحت سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
شاید سب سے متنازعہ فیصلہ ایک بار پھر شام چھ بجے کاروبار بند کرنا ہے۔ تاجر برادری ان ہدایتوں پر عمل کرنے کے کسی موڈ میں نہیں ہے اور انہوں نے مزاحمت کا عزم کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سیاسی جماعتیں خود ریلیاں نکالتی رہی ہیں لیکن اب ان کے کاروبار کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے اپنی رٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان افراد کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے جو احکامات نہیں مان رہے اور تمام ایس او پیز اور حفاظتی احتیاطی اقدامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
اس مرتبہ دوسرے لاک ڈاؤن میں لوگ گھروں میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے ان کے کام اور زندگی میں خلل پڑتا ہے۔ کورونا ایک سال ہورہا ہے اور لوگ وبائی بیماری سے تنگ آچکے ہیں ۔ ایس او پیز پر پہلے سے کوئی نفاذ نہیں ہوا ہے اور لوگ اپنی زندگیوں کے ساتھ ایسے آگے بڑھ رہے ہیں جیسے وبائی امراض کبھی موجود نہیں ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہم ایک اور لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتے لیکن جب صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی تو انہیں جلد ہی احساس ہوجائے گا۔ انہوں نے اپوزیشن کو کیسزکی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کیونکہ پی ڈی ایم نے بڑے بڑے جلسے کیے جہاں تمام ایس او پیز کی کھلے عام خلاف ورزی کی گئی چنانچہ صورتحال نے دوبارہ لاک ڈاؤن کا امکان پیدا کیا ہے۔
ہمارے پاس اس وقت جلد کورونا ویکسین کی دستیابی کا امکان نہیں ہے اور اب سردیاں آچکی ہیں، حکومت نے جو حفاظتی احتیاطی تدابیر منظور کیں ان کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے اپنے مفاد کے لئے ہے۔ ہمیں یہ احساس کرنا چاہئے کہ ہمیں ابھی بھی تکلیف دہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔