سندھ حکومت کا 12 سالہ دورِ اقتدار اور صحرائے تھر کی حالتِ زار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سندھ حکومت کا 12 سالہ دورِ اقتدار اور صحرائے تھر کی حالتِ زار
سندھ حکومت کا 12 سالہ دورِ اقتدار اور صحرائے تھر کی حالتِ زار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے گزشتہ 12 سالہ دورِ اقتدار کے دوران صحرائے تھر کی حالتِ زار پر توجہ دینے کے دعوے تو بہت کیے لیکن کیا حقیقت میں تھر میں کوئی کام ہوا یا نہیں اس پر حالاتِ حاضرہ ہی ہماری بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا میں آج ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق صحرائے تھر میں پانی کی قلت اور غذائی کمی کے باعث کمزور دماغ کے بچوں میں اضافہ جاری ہے۔

دورانِ حمل ریڑھ کی ہڈی میں پیدائشی نقص لے کر پیدا ہونے والے بچے معذور ہوتے ہیں جن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ اس بد ترین بیماری کو ہائیڈروسیفالس کہا جاتا ہے۔

آئیے تھر کے حوالے سے مختلف معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سندھ حکومت نے اپنے 12 سالہ دورِ اقتدار میں سندھ کے پسماندہ ترین صحرائے تھر کیلئے کیا کیا؟

صحرائے تھر کا تعارف 

صوبہ سندھ کے جنوب مشرق میں تھرپارکر کے عوام کی مشکلات اور المناک داستانیں زباں زدِ عام ہیں جبکہ اِس علاقے کا رقبہ 21 ہزار مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔

مؤرخین کے مطابق قدیم دور میں تھر کا علاقہ دریائے سرسوتی کے ذریعے سیرا ہوا کرتا تھا، پھر مہرانوں نہر سے پانی دستیاب ہوا، دریائے سندھ سے باکڑو نامی نہر بھی تھر کیلئے ہی نکالی گئی تھی تاہم 17ویں صدی میں ایک سیاسی فیصلے نے یہ نہر بھی بند کروا دی۔

بارش کے وقت تھر گلستان کا منظر پیش کرتا ہے جبکہ خشک سالی کے دوران تھر سے بڑھ کر بیابان کوئی نہیں۔ یہاں کے لوگوں کا اہم ترین پیشہ مویشی پالنا ہے۔ 

تھر کی اہمیت اور پیپلز پارٹی کے دعوے

یہاں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ تھر کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟ تو اس حوالے سے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا ہےکہ تھر میں دُنیا کا تیسرا بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے۔

ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق چین میں کول گیس ڈیزل میں تبدیل کی جاتی ہے اور چینی کمپنیاں تھر آ کر کوئلے سے ڈیزل بنانے میں دلچسپی بھی لے سکتی ہیں۔/ تھر میں 175 کلومیٹر گہرائی میں کوئلہ زیرِ زمین موجود ہے جبکہ پاکستان 3 سال تک 220 ملین کیوبک فٹ گیس بنا سکا۔

گزشتہ برس  چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تھرکول بلاک 2 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈیول تھرکول میں متعارف کرا چکی، یہی ماڈل پورے پاکستان میں سی پیک کو کامیاب کرسکتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تھرکول منصوبہ مقامی لوگوں کا ہے، تھر کا کوئلہ سب سے پہلے تھر کے لوگوں کا ہے، گاؤں کے باسیوں کو کمپنی میں شیئرز دئیے جائیں گے۔ تھر کے لوگ اپنا حق حاصل کرتے رہیں گے۔ 

آثارِ قدیمہ کی موجودگی 

سندھ کے صحرا تھر اور گردونواح میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق کسی دور میں جین مت کے ماننے والے بسا کرتے تھے، مگر تقسیمِ ہند کے بعد یہ لوگ کہیں اور جا کر بس گئے۔

جین مت کے قدیم مندر خستہ حالت میں تھر میں آج تک موجود ہیں جبکہ جین مت عقیدہ کم و بیش 600 برس پرانا ہے جو ہندو مت کی بجائے بدھ مت سے زیادہ قریب مانا جاتا ہے۔

پانی کا مسئلہ اور کنووں کی کھدائی 

تھر کے علاقے نگر پارکر کے قریب راڑکو میں پانی کیلئے کنواں کھودنے کے دوران رواں برس جون میں ہی 4 مقامی افراد دبنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جس کے حوالے سے رکنِ سندھ اسمبلی قاسم سومرو نے تفصیل بیان کی۔

قاسم سومرو کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ دوپہر کے وقت پیش آیا، ضلعی حکومت نے کنواں کھودنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، پھر بھی لوگ کنویں کھودنے میں مصروف رہتے ہیں۔

رکنِ سندھ اسمبلی قاسم سومرو کے مطابق تھر کی آبادی 18 لاکھ ہے۔ مٹھی اور اسلام کوٹ سے متصل علاقوں میں آباد 7 سے 8 لاکھ افراد دریائے سندھ کا پانی پائپ لائن سے حاصل کرتے ہیں۔ 

بھوک اور غذائی قلت کا مسئلہ

ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں رہیں۔ جولائی 2020ء میں 40 سے زائد بچے وفات پا گئے جبکہ رواں برس غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہے۔

جنوری میں 77، فروری میں 66، مارچ میں 47، اپریل میں 59 جبکہ مئی میں 63 بچے غذائی قلت اور امراض کے باعث چل بسے۔ 

وزیرِ اعلیٰ سندھ اور تھرپارکر 

نگر پارکر میں وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کالی داس ڈیم کا افتتاح 28 اکتوبر کو کیا جس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ تھر کے عوام ذوالفقار بھٹو کے دور سے ہی پی پی پی کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تھر کے عوام نے ووٹوں کی طاقت اور پارٹی سے وابستگی سے دیگر جماعتوں اور اتحادیوں کو مسترد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو اقتدار دیا اور پیپلز پارٹی نے بھی تھر کے عوام کی بھرپور خدمت کی۔

سیّد مراد علی شاہ نے کہا کہ پل، سڑکیں، کوئلہ، چھوٹے ڈیم، روزگار کے مواقع اور بجلی کے منصوبوں سمیت تھر کے عوام کو کم و بیش ہر سہولت مہیا کی گئی ہے۔

روزگار کے حوالے سے وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ تھرپارکر کے ہر گھر میں اوسطاً ایک ملازمت کوئلے کی کان کنی، آر او پلانٹس اور کول پاور سے متعلق منصوبوں میں موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 23 ڈیم مکمل ہونے سے علاقے کے لوگ خاطر خواہ فوائد حاصل کرسکیں گے۔ 45 سے 50 دیہات کے عوام ڈیموں سے پانی لینے کے ساتھ ساتھ جانوروں کی پیاس بھی بجھا رہے ہیں اور 85 ہزار ایکڑ اراضی سیراب بھی ہورہی ہے۔

کالی داس ڈیم کے حوالے سے وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ننگر پارکر ٹاؤن کے مغرب میں 1 کلومیٹر کے فاصلے پر کالی داس ٹیم کی تعمیر 33 کروڑ 30 لاکھ روپے سے عمل میں لائی گئی۔ 

چیئرمین پیپلز پارٹی کا بیان 

صوبے میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے گزشتہ ماہ اپنے بیان میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے سندھ میں مفت علاج کیلئے ہسپتالوں کا جال بچھایا، تھر جیسے ریگستان میں پاور پلانٹ شروع کردیا۔ گلگت بلتستان میں بھی بجلی کا منصوبہ لگائیں گے۔

دوسری جانب تحریکِ انصاف کے مطابق سندھ میں کوئی تعمیر و ترقی نہیں ہوئی، دعوے تو کیے گئے لیکن کام نہیں ہوا۔ سندھ میں ہر سال سینکڑوں بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔

 

Related Posts