ن لیگی رہنما کیپٹن صفدر کو 2 روز قبل مزارِ قائد کے تقدس کی پامالی پر جس تیز رفتاری سے گرفتار کیا گیا، اس پر عوام حیرت میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔
اول تو کسی سیاسی رہنما کے خلاف اتنی تیزی سے ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی اور دوم یہ کہ اگر یہ جرم ہوبھی جائے تو گرفتاری عمل مین نہیں لائی جاتی، تاہم بھلا ہو سندھ حکومت کا جس نے کھل کر اعتراف کیا کہ یہ گرفتاری وزیرِ اعلیٰ سندھ کے حکم پر عمل میں نہیں آئی۔
بہرحال، جس تیزی سے کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ اسی برق رفتاری سے رہا بھی ہو گئے لیکن اپنے پیچھے سندھ پولیس کو حیران و پریشان چھوڑ گئے۔ آئی جی سندھ سمیت اعلیٰ افسران نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا جو بعد ازاں مشروط طور پر واپس لے لیا گیا۔
آئیے اِس تمام تر صورتحال کے تناظر میں سندھ پولیس میں موجود تشویش اور سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے مؤقف کا بھی جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسائل کا حل کیا ہوسکتا ہے؟
ن لیگی رہنما کی گرفتاری اورپولیس افسران کی چھٹیاں
یہ بات اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ آئی جی سندھ کو مجبور کرکے کسی طرح ن لیگی رہنما کیپٹن صفدر کو گرفتار کروایا گیا جس کے خلاف احتجاجاً آئی جی سندھ اور اعلیٰ افسران نے چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیا جس پر آئی جی سندھ مشتاق مہر اور دیگر اعلیٰ افسران نے اپنی چھٹیاں مؤخر کردیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سندھ پولیس نے اپنے پیغام میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ واپس لیا گیا۔
قبل ازیں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی آئی جی ہاؤس جا کر آئی جی سندھ پولیس سے ملاقات کی تھی جس کے دوران سندھ حکومت کی اعلیٰ ترین قیادت، وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اطلاعات سندھ بھی ان کے ہمراہ موجود رہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ آپ چھٹی کی درخواست واپس لیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔ عوام کو سندھ پولیس کی خدمات کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کی پولیس افسران سے ملاقات
آج سندھ پولیس میں تشویش کی لہر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ، ڈی آئی جیز اور دیگر اعلیٰ پولیس افسران کو سی ایم ہاؤس میں ملاقات کیلئے طلب کیا تھا جہاں تمام افسران نے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی۔
دورانِ ملاقات سندھ پولیس کے مسائل اور کارکردگی پر گفتگو ہوئی، وزیرِ اعلیٰ سندھ نے پولیس کی کارکردگی اور بالخصوص کراچی میں دہشت گردی کے خلاف جان کی قربانیوں اور قیامِ امن کیلئے کارروائیوں کو سراہا۔
اس موقعے پر وزیرِ اعلیٰ سندھ نے سندھ پولیس کو یقین دلایا کہ صوبائی حکومت آپ کے ساتھ ہے اور ہم افسران کے حوصلے کسی صورت پست نہیں ہونے دیں گے جس پر پولیس افسران نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بیان
وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ بلاول ہاؤس کے اشارے پر کیا۔ اگر اپنے دامن کو پاک رکھنے کی کہانی آگے بڑھائی گئی تو معاملات کھل جائیں گے۔
کھل کر حقیقت بتانے سے گریز کرتے ہوئے فواد چوہدری نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اداروں کو نیچا دکھانے کی کوششیں اور سازشیں ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے۔
آئی جی سندھ مشتاق مہر
سندھ پولیس کے آئی جی مشتاق مہر نے رواں برس 2 مارچ کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا جو قبل ازیں آئی جی ریلوے بھی رہ چکے ہیں۔
آئی جی سندھ نے پہلے آئی جی ٹریفک سندھ کا عہدہ بھی سنبھالا ہوا تھا اور کراچی پولیس چیف کے طور پر 2 بار خدمات سرانجام دیں جس سے ان کے پیشہ ورانہ تجربے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ابتدائی تحقیقات کیا کہتی ہیں؟
ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی مریم نواز کے شوہر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے مزارِ قائد پر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگوائے، وفاقی حکومت فوری طور پر حرکت میں آگئی۔
وزیرِ بحری امور علی زیدی اور پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ سمیت تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی اور رہنما تھانے جا پہنچے اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
جب بعد میں یہ ایف آئی آر منظرِ عام پر آئی تو اس میں مدعی کی جگہ کسی بھی پی ٹی آئی رہنما کا نام موجود نہیں تھا اور جب مدعی کی جائے وقوعہ پر موجودگی پر غور کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ اس وقت مزارِ قائد پر موجود ہی نہیں تھے۔مزید تحقیقات ابھی باقی ہیں۔
مسائل کا حل کیا ہے؟
پارلیمان ہو، پاک فوج ہو ، سیکیورٹی ادارے ہوں یا پھر پولیس، انہیں اپنا کام اپنے طریقے سے کرنے دینا ہی مسائل کا واحد حل ہوتا ہے۔
اگر وفاقی حکومت یا کسی فردِ واحد کو سندھ پولیس کے رویے یا کارکردگی سے کوئی شکایت تھی تو اس کے حل کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا جاسکتا تھا۔
آج ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف، مریم نواز، آصف زرداری اور شاہد خاقان عباسی سمیت متعدد اپوزیشن رہنما مقدمات بھگتتے پھر رہے ہیں لیکن انصاف ہوتا نظر نہیں آتا۔
کیا اِس بات کا یہ مطلب لیا جائے کہ چونکہ وفاقی حکومت یا دیگر مدعی یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن رہنما ملک کی دولت لوٹ کر کھا گئے لہٰذا عدالت کا فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو، انہیں سزا ضرور ہونی چاہئے؟ یقیناً نہیں، کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
ملک کا نظامِ قانون اگر کمزور ہے تو اسے درست کرنے کیلئے حکومت موجود ہے۔ سندھ حکومت کو عوام نے منتخب کیا ہے اور پولیس سندھ حکومت کے تحت اپنے فرائض خوش دلی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ مسائل کے حل کیلئے قانونی راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کیونکہ اگر ہر شخص اپنی مرضی کرنے لگے تو نظامِ حکومت بے کار ہو کر رہ جائے گا۔