ڈارک میٹر یا تاریک مادّہ دراصل وہ چیز ہے جو کبھی نظر نہیں آتی، اس کے باوجود موجود رہتی ہے جس کی اصلیت پر نیا نظریہ سامنے آیا ہے جو سائنسدانوں کو کائنات کےآغاز تک لے گیا۔
تفصیلات کے مطابق فزیکل ریویو لیٹرز میں شائع کی گئی جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کی ابتداء میں موجود بلبلے اگر پھیلائے جائیں تو تاریک مادّے کی حقیقت سمجھ میں آسکتی ہے۔
مجوّزہ طریقہ کار سے پتہ چلتا ہے کہ تاریک مادّے کی زیادہ تر مقدار کائناتی مراحل کی منتقلی میں مضمر ہوسکتی ہے جس کا تعلق ابتدائی کائنات سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ کائنات میں موجود سیاہ مادّے کی نئی وضاحت پیش کرتا ہے۔
مجوّزہ طریقہ کار سے پتہ چلتا ہے کہ تاریک مادّے کی زیادہ تر مقدار کائناتی مراحل کی منتقلی میں مضمر ہوسکتی ہے جس کا تعلق ابتدائی کائنات سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ کائنات میں موجود سیاہ مادّے کی نئی وضاحت پیش کرتا ہے۔
قبل ازیں سائنسدانوں نے بہت سے تجربات کے ذریعے تاریک مادّے کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جس نے سائنسدانوں کو بنیادی سائنسی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے نظریات پر بھی غور پر مجبور کیا۔
نئے نظرئیے کے حوالے سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی تجربہ گاہ میں تاریک مادّے کی اصلیت جاننے کیلئے تجربہ کیاجاسکتا ہے جس سے کچھ نیا جاننے کو مل سکتا ہے اور یہ نظریہ تاریک مادّے کی تلاش میں خیالات کو وسعت عطا کرتا ہے۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل سائنسدانوں نے 99 اعشاریہ 99 فیصد تاریک مادّے یعنی ڈارک میٹر سے بنی ہوئی کہکشاں ڈی ایف 44 کا معمہ بالآخر حل کر لیا۔
فلکیات دانوں کے مطابق کائنات میں کوئی پر اسرار مادہ موجود ہے جس کی موجودگی اگر تسلیم نہ کی جائے تو کہکشاؤں کی تشکیل سمجھنا مشکل ہے جبکہ ماہرینِ فلکیات نے پیمائش کی کہ کہکشاؤں کے اردگرد کتنا تاریک مادہ موجود ہوسکتا ہے جبکہ بہت پہلے ایک ڈریگن فلائی 44 نامی آبجیکٹ کی دریافت عمل میں لائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: 99.99 فیصد ڈارک میٹر سے بنے کہکشاؤں کے کلسٹر کا معمہ حل