جزیروں کے معاملے کو متنازعہ نہ بنایا جائے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کے ساحل سے دور دو جزیروں کی تحویل کے حوالے سندھ اور وفاق کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے، وفاقی حکومت جزیروں پرمیگا کمرشل اور رہائشی اسکیمیں بنانا چاہتی ہے۔ گذشتہ ماہ ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مرکز نے ان جزیروں کو اپنی ملکیت ظاہر کیااوریہ معاملہ اب منظرعام پر آگیا ہے۔

صدر عارف علوی نے ایک نیا ادارہ تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی ایک سینئر ملٹری آفیسر یا بیوروکریٹ کریں گے اور دس سال تک اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ وزیر اعظم اتھارٹی کے سرپرست ہوں گے اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری دیں گے۔

کافی ہنگامہ آرائی کے بعد، یہ انکشاف ہوا کہ سندھ حکومت نے جزیروں کو وفاقی حکومت کے حوالے کردیا تھا اور اب سندھ حکومت کی تنقید بلاجواز ہے۔ وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی ایک خط سامنے لائے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے جولائی میں منصوبے کی اجازت دی ہے۔ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے فرائض پر ایک مختصر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اتھارٹی مکمل بااختیار ہوکرفرائض انجام دے گی۔

پی آئی ڈی اے کے اختیارات نے وفاقی حکومت کے منصوبوں کو متوازن کرتے ہوئے سندھ حکومت کو خط واپس لینے پر مجبور کردیاہے۔ سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جزیرے کی ترقی کچھ شرائط اور مقامی برادریوں اور ماہی گیروں کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ مشروط ہے۔

یہ دونوں جزیرے بڈو اور بنڈل کراچی کے ساحل سے محض چند میل دور واقع ہیں اور کئی سالوں سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکونزاور بزنس مین ان جزائر پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔2013ء میں ملک ریاض اور امریکی رئیل اسٹیٹ تھامس کریمر کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کی مالیت 20بلین ڈالر ہے۔ اس پروجیکٹ میں فلک بوس عمارتیں اور دیگر جدید سہولیات شامل تھیں لیکن کبھی اس کو عملی شکل نہیں دی گئی اور سرمایہ کاراس منصوبے سے پیچھے ہٹ گئے۔

سندھ اور وفاقی حکومت اس منصوبے کے حوالے سے آپس میں رسہ کشی میں مصروف ہیں تاہم ایک بات جو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس منصوبے سے تجارت، سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور ملک میں سیاحت کے در کھولے گا تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ خفیہ سودے کرنے کی بجائے کسی بھی معاہدے میں قوانین پر عمل کیا جائے۔ وفاق کو بھی آرڈیننس پاس کرنے کے بجائے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانا چاہئے تاکہ تمام فریقین کے تحفظات دور کئے جاسکیں۔

Related Posts