لاہور موٹروے پر خاتون سے اجتماعی عصمت دری پر کئی دن خاموشی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے جنسی تشدد کو روکنے کے لئے عصمت دری کرنے والوں کے لئے سرعام پھانسی اور کیمیائی ذرائع سے ملزم کو آختہ کرنے کی تجویز دی ہے جس کے بعد ملک میں عصمت دری کے خلاف مؤثر قانون سازی کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی ہے۔
وزیر اعظم کا خیال ہے کہ عصمت دری کرنے والوں کو مثالی سزا ء دی جانی چاہئے اور چوراہوں پر پھانسی دی جانی چاہئے تاہم انھوں نے کہا کہ یہ مشکلات کا باعث ہوگا کیونکہ یہ بین الاقوامی سطح پر قابل قبول نہیں ہے اور اس سے ملک کے تشخص کو نقصان پہنچے گا۔
قوم اس واقعے پرمشتعل ہے ،عصمت دری کے مجرم کو پھانسی دینا یا اسکی جنسی صلاحیت ختم کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایسا شخص جو اپنی جنسی خواہشات کوقابو نہیں رکھ سکتا اس کو معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا بیان بھی پریشانی کا باعث ہے کیوں کہ اس میں عصمت دری کی وجوہات کی بجائے سزاء پر توجہ دی جارہی ہے۔
اس سے بہت سارے قانونی اور انسانی حقوق کے چیلنج درپیش ہوں گے اور اسے غیر آئینی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مشکل اقدام ہوگا کیونکہ مجرموں کی آختہ کاری کی قیمت ریاست کوبرداشت کرناہو گی تاہم عصمت دری کیخلاف مؤثر قانون سازی اور روک تھام کے بجائے یہ ایک آسان حل ہے۔
جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت کو عصمت دری اور جنسی تشدد کی اصل وجوہات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ 2012 میں نئی دہلی میں چلتی بس میں ایک عورت کی اجتماعی عصمت دری سے ہندوستان لرز اٹھا تھا لیکن کیمیائی آختہ کاری کا فارمولاعصمت دری کے سدباب میں کا میاب نہیں ہوسکا ۔ ہندوستان کے دارالحکومت میں اب بھی ہر 15 منٹ میں عصمت دری کے ایک واقعے کی اطلاع ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ عصمت دری کے معاملے میں سزاء کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے جس کی وجہ سے پیچیدہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور عدالتوں کو ایسے معاملات میں تیزی لانا چاہئے۔ اکثر پولیس کی ناقص تفتیش اس معاملے میں زیادتی کے مجرموں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور متاثرین کوصلح پر مجبور کیاجاتا ہے۔ جنسی تشدد کے معاملات میں سخت سزائیں اور انصاف میں تیزی لانا چاہئے سے اس معاملے سے نمٹا جاسکتا ہے۔
عصمت دری اب ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے اور اس وقت تک اس کا سدباب نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ قانونی اصلاحات نہ ہوں ۔ ہمیں عصمت دری کے ساتھ منسلک معاشرتی بدنامی کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے اور زیادہ اہم بات یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عصمت دری ایک فرد کے عمل کی بجائے معاشرتی مسئلہ ہے۔حکومت محض بیان بازی سے اس خطرے کو ختم نہیں کرسکے گی بلکہ اس کے بجائے وسیع پیمانے پر اقدامات اور نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔