سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح کے قتل کو ’غیرت کے نام پر قتل نہیں کہا جانا چاہئے۔ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے طرز عمل اور رویے موجود ہیں۔
اعلیٰ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اردو زبان کے لفظ غیرت کا غلط استعمال مناسب نہیں ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ اگر اس طرح کے قتل کے لئے ”غیرت” کی اصطلاح استعمال نہ کی جائے تو اس طرح کے قتل کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان میں بنیادی طور پر غیرت کے نام پر خواتین کے قتل عام کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور اکثر قاتل اپنے جرم کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مقامی عدالتیں اکثر مجرموں کے ساتھ نرمی کرتی ہیں اور انھیں کم سزائیں ملتی ہیں یا پھر انھیں بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
اسی طرح ننکانہ کی ایک عدالت نے شک کی بناء پراپنی بہن کو قتل کرنے والے شخص کی سزائے موت مسترد کردی کیونکہ ملزم نے صرف ایک بار گولی مار ی تھی۔ ہمارے ملک میں ایسی متعدد مثالیں ہیں جبکہ اس طرح کے اکثر و بیشتر کیسز منظر عام پر آتے ہی نہیں ہیں اور اکثر قاتلوں کو جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے سپورٹ مل جاتی ہے۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کا سلسلہ بدستور بڑھتا جارہا ہے، اس کے باوجود اس عمل کے خلاف کام نہیں کیا جارہا ہے۔ گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں اور ابھی تک اس پر عمل درآمد نظر نہیں آرہا ہے۔ کمزور معاشرتی حیثیت، پولیس کے عدم تعاون اور ناقص تفتیش اور قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے اکثر و بیشتر پولیس کو بہت سے جرائم کی اطلاع نہیں ملتی۔
کئی برسوں سے پاکستان مستقل طور پر خواتین کے لئے سب سے خطرناک ممالک میں شامل ہے۔ سزاء کی شرح کافی حد تک کم ہے اور یہ بدقسمتی ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کو ختم کرنے کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر قتل سمیت خواتین کے خلاف جرائم روکنے کیلئے مضبوط قانون سازی اور قانونی چارہ جوئی ہو۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ہمیں خواتین کے بارے میں معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے مشاہدہ کیا کہ قتل عام میں کوئی غیرت نہیں ہے اور اس طرح کے جرائم سے باز آنا ضروری ہے۔