اسلامی تاریخ میں واقعۂ کربلا کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں جبکہ 9 اور 10 محرم کو شہدائے کربلا پر ظلم وستم کے جو پہاڑ توڑے گئے وہ عالمِ انسانیت کیلئے آج بھی ایک سوالیہ نشان ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنگ کی ایک سمت تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا قافلہ تھا جس نے بہادری، جرات و شجاعت اور صبر و استقلال کی وہ مثالیں قائم کیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا جبکہ ان کے مقابلے پر موجود افراد نے بھی خود کو مسلمان ہی کہا۔
ایسے مسلمان جو اسلام کے ساتھ ساتھ انسانیت کے نام پر بھی دھبہ تھے، انہوں نے قرآن و سنت کی ہدایات کی سنگین خلاف ورزیاں کرتے ہوئے نبئ آخر الزمان و خاتم النبیین ﷺکے نواسے اور آپ علیہ السلام کے اہلِ بیت کو نہ صرف قتل کیا بلکہ ان کی بے حرمتی بھی کی۔
آئیے واقعۂ کربلا کے عروج سے قبل صرف 9 محرم الحرام تک کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر اتنا ظلم و ستم کیوں ہوا جس پر عالمِ انسانیت آج بھی ماتم کناں ہے۔
سیاست اور اقتدار کی بجائے اسلام
سب سے پہلے یہ حقیقت سمجھنا ضروری ہے کہ واقعۂ کربلا کسی سیاست اور اقتدار کی جنگ کی بجائے صرف اور صرف بقائے اسلام کی جنگ تھی۔ یزید حضرت امام حسین علیہ السلام سے بیعت چاہتا تھا جبکہ امام حسین علیہ السلام نے یہ بیعت اِس لیے نہ کی کیونکہ آپ شریعتِ اسلامی کا نفاذ چاہتے تھے۔
یزید نے امیر المومنین کا منصب حاصل کرنے کے بعد شریعتِ مطہرہ کی وہ خلاف ورزیاں کیں کہ انسانیت بھی اس پر شرمسار ہوئی جس سے بیعت کا مطلب صرف یہ لیا جاتا کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر طاقتور جو چاہے کرسکتا ہے، اسلامی شریعت میں اپنی مرضی کے اصولوں کے سوا سب کچھ چھوڑا جاسکتا ہے۔
جنگ کے دونوں اطراف ایک اہم فرق
ایک طرف حضرت امام حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقاء تھے جنہیں شہید کیا گیا، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو قیدی بنایا گیا، 72 ساتھی، کچھ غلام اور 22 اہلِ بیت کے جوان اور نبی اکرم ﷺ کے خانوادے کی کچھ خواتین اور بچے جنگ کی ایک سمت موجود تھے۔
ایک طرف تو یزید کی طرف سے جنگ کیلئے ماہر سپاہی اور سپہ سالار کی خدمات حاصل کی گئیں جبکہ دوسری جانب کوئی فوج نہیں بلکہ ایک ایسا خاندان تھا جس نے اسلام کیلئے جان دینے کا عزم رکھتے ہوئے ہی بیعت سے انکار کیا تھا۔
بیعت نہ کرنے کی وجوہات ۔ یزید کا کردار
بنیادی طور پر اسلام میں امیر المومنین کے منصب پر اس شخص کو فائز کیا جاتا تھا جس کا اعلیٰ کردار مکمل طور پر بے داغ ہو تاہم یزید کے کردار میں کچھ ایسی برائیاں تھیں جن کے تحت تمام علمائے اِسلام اِس بات پر متفق ہیں کہ یزید خلافت کا کسی لحاظ سے اہل نہیں تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یزید کے خلاف تھے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یزید کی خلافت برحق تھی تو ہمیں یہ بھی ماننا ضروری ہوجائے گا کہ نمرود، فرعون اورشداد جیسے لوگوں نے بھی حکمران بن کر کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کیا جن کا کافر ہونا قرآن سے ثابت ہے۔
یہ شخص مسلمان نہیں تھا کیونکہ وہ خدا کی قائم کردہ حدودوقیود، حلال و حرام اور شریعتِ اسلام کو نہیں مانتا تھا۔ وہ بیت اللہ کا احترام نہیں کرتا تھا، نہ ہی مسجدِ نبوی ﷺ کو اہم سمجھتا تھا۔ وحی کا انکار، فرشتوں کی تکذیب اور قریش و بنو ہاشم کو ڈھونگی قرار دینا اس کی خصلت تھی۔
خاندانِ رسول کو ظالمانہ اور وحشیانہ انداز میں قتل کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید کے ذہن میں رسول اکرم ﷺ یا آپ ﷺ کے خاندان کا کوئی احترام یا لحاظ نہیں تھا۔ کربلا میں رفقائے حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد یزید نے بدر میں مارے گئے کفار کو باپ دادا قرار دیا۔
اہلِ کوفہ کے خطوط اور امام حسین علیہ السلام کا ردِ عمل
کوفہ میں موجود مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ یزید کا قلع قمع کیاجاسکے، تاہم جنگِ کربلا میں اہلِ کوفہ کے کردار پر صرف ایک ہی مثال صادق آتی ہے۔
عربی میں کہا جاتا ہے کوفی لا یوفی۔ یعنی اہلِ کوفہ وفا نہیں کرتے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ بلا کر اور ظلم کے خلاف کمربستہ ہونے کی دعوت دینے کے بعد کوفی تو پیچھے ہٹ گئے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام نے یہ جنگ آخری دم تک لڑی۔
واقعۂ کربلا کی تفصیلات
کوفیوں کے خطوط پر ردِ عمل دیتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو عراق بھیج دیا تاکہ درست صورتحال معلوم کی جاسکے۔ کوفہ پہنچنے کے بعد 18 ہزار کوفیوں نے چند ہی دنوں میں مسلم بن عقیل کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا خط ملنےکے بعد حضرت امام حسین بھی کوفہ پہنچنے کیلئے تیار ہو گئے۔ حضرت ابن عباس اور ابنِ زبیر نے آپ کو روکا اور کہا کہ کوفی غدار اور بے وفا ہیں جنہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ پہلے ہی بے وفائی کی ہے۔ ہمیں آپ کی جان کا خطرہ ہے۔
عراق میں حالات اچانک پلٹ گئے۔ مسلم بن عقیل کی کسی نے مخبری کردی۔ مسلم بن عقیل اور ابنِ زیاد (حاکمِ کوفہ) کے ٹکراؤ کے بعد خطرہ بھانپتے ہی سارے کوفی منظر سے غائب ہو گئے۔ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔
سیدنا امام حسین عراق کیلئے روانہ ہوچکے تھے، مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ بھائی کے خون کا بدلہ ضرور لیں گے۔ آپ نے ارادہ پھر تبدیل کیا اور آگے روانہ ہوئے۔
یہاں ابنِ زیاد نے لشکر بھیج دیا جس کی ذمہ داری امام حسین سے بیعت لینا تھی۔ کچھ دنوں بعد 4 ہزار سپاہیوں کا لشکر بھی روانہ کیا گیا جس کی سربراہی عمر بن سعد نے کی۔ محرم کے دوران کربلا میں حضرت امام حسین کے قافلے پر پانی بند کردیا گیا۔
سن 61 ہجری میں 9 محرم تک یزید کی بیعت کیلئے زبردست دباؤ ڈالا گیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بیعت نہیں کرسکتا۔ مکہ واپس جاناچاہتا ہوں، میرا راستہ چھوڑ دیا جائے لیکن یزید کے لشکر نے انکار کردیا۔
کہا گیا کہ آپ یا تو یزید کی بیعت کر لیں یا ابنِ زیاد کے پاس ہمارے ساتھ چلیں تاہم آپ نے سختی سے انکار فرمایا۔ بعد ااں شمر ذی الجوشن نامی لعین شخص ایک نیا دستہ لے کر آگیا جس کے بعد جنگ لازمی ہو گئی اور مصالحت کے امکانات ختم ہو گئے۔
صرف 72 ساتھیوں کے ہمراہ ہزاروں کی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے حضرت امام حسین میدانِ کربلا میں نکلے۔ 10 محرم کے روز جنگ میں ایک ایک کرکے تمام رفقاء نے جامِ شہادت نوش کیا۔ سنان بن انس نامی شخص نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا۔
شہادت کا مقصد
غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے شریعت کے خلاف کسی حکمران کی غلامی قبول کرنے پر موت کو ترجیح دی جس سے اسلام کی حقانیت واضح ہو گئی۔
یہاں اگر یہ واقعہ روک دیا جاتا ، حضرت امام حسین بیعت کر لیتے تو رفقائے کربلا کی جانیں تو بچ جاتیں لیکن شاید آج اسلام کو اتنا اہم مذہب نہ سمجھا جاتا جتنا کہ یہ آج ہے جسے تسلیم کرتے ہوئے شاعرِ مشرق نے بھی فرمایا:
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد