10 ذوالحجہ وہ مبارک اور عظیم الشان قربانی کا یادگار دن ہے جب امت مسلمہ کے مورثِ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں رب ذوالجلا ل کی طرف سے عطا ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الٰہی کی خاطر قربان کرنے کا قدم اٹھاکر جانثاری ، فرمانبرداری اور قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ رب العزت کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عقد کیا وہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کر کے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے امرکردیا۔ان دونوں کی قربانی کو اسی وقت رب تعالیٰ نے قبولیت کاشرف بخشا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سلامتی کا پروا نہ عطا کر کے آپ کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا جسے رب تعالی نے ذبحِ عظیم قرار دیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی یہ قربانی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ خالق کائنات نے قیامت تک اسے سنت ابراہیمی بنا دیا اورمسلمان ہر سال دس ذو الحجہ کو اس عظیم قربانی کو تازہ کرتے ہیں۔
قربانی کی حکمت
ایک روایت کے مطابق صحابہ نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں ،آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ہمیں ان میں کیا ملے گا ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا قربانی کے جسم پر جو بال ہوتے ہیں ان میں ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی ،صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ جن جانوروں کے جسم پر اون ہوتی ہے انکا معاملہ کیا ہو گا آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اون کے ہر ریشے کے بدلے نیکی ملے گی۔
قربانی پر اعتراض
قربانی اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ اوراللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، قربانی کے جانوروں کی خریداری پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ بعض لوگ جانور کی قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی پر خرچ کرنے کی بجائے کسی غریب کی مدد کردی جائے تو زیادہ بہتر ہے لیکن قربانی پر اس بے جا اعتراض سے متعلق عرض ہے کہ جس رب نے قربانی کو لازم قرار دیا ہے اسی رب نے صاحبِ نصاب آدمی پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے اور اس کے علاوہ دیگر صدقات کی بھی ترغیب دلائی ہے۔ اسلام نے اس پر قربانی کے ساتھ زکوٰۃ بھی فرض کی ہے، اس لیے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کی مد سے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔
قربانی کے دنیاوی فوائد
عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی میں بھی غریبوں کا فائد ہ ہے،بےشمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا لیکن اس عید پر قربانی انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔
ملک میں کئی غریب لوگ سال بھر جانورپالتے ہیں تاکہ عید پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہو جائے گی۔ قربانی کے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہےاور ان مویشیوں کے چارے اوردیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔
قربانی کے جانوروں کی کھالوں سے چمڑے کے کاروبار کو ترقی ملتی ہے، قربانی کی کھالیں مدارس اور فلاحی اداروں کودی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم غریبوں کے کا م آتی ہیں۔
حقیقی قربانی
اللہ نے اپنے بندوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے کیا ،عید کے موقع پر جب ہم اللہ کی راہ میں جانوروں کو قربان کر رہے ہیں تو ہمیں ان عادات کو بھی قربان کرنے کی ضرورت ہے جن سے اللہ کے بندوں کو سارا سال نقصان پہنچاتے ہیں ،آج ہمیں اپنی انا، دشمنیاں، مال و دولت جمع کرنے کی ہوس، ذاتی اختلافات، نفرت بھی قربان کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہمارا قربانی کا حقیقی مقصد پورا ہوسکتا ہے۔