کورونا وائرس کی وجہ سے ان دنوں شادی اور سمندری امور دونوں ہی مشکلات سے دوچار ہیں ، شادی کے خواہشمندتوپچھلے 6 ماہ سے کورونا کی وباء کے باعث شدید متاثر ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے سمندری امور برسوں اور دہائیوں سے لاعلمی ، تنازعات ، ذاتی مفاد اور کم فہمی کی وبائی بیماری سے متاثر ہیں۔
اس وقت سمندری امور کا معاملہ تباہی کے کنارے پر پہنچ کرفوری بچاؤ کی تلاش میں ہیں،اگر پاکستان حقیقی طور پر پائیدار ترقیاتی کے اہداف کو حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو ‘پانی کے نیچے کی زندگی جسے عام طور پرنیلی معیشت کے نام سے جانا جاتا ہے اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں صوبائی اور وفاقی سطح پر پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) سے نمٹنے کے متعدد بنیادی ڈھانچے اور درجہ بندیاں موجود ہیں لیکن زمینی حقائق انتہائی شرمناک ہیں کیونکہ بنیادی طور پر ایس ڈی جی 14 کی سمت طے کرنے کے لئے کوئی قابل عمل حکمت عملی موجود نہیں ہے جبکہ پاکستان نے ایس ڈی جی کے لئے اقوام متحدہ کے اجلاس میں 192 ریاستوں کے ساتھ دستخط کرنے کے پانچ سال بعد بھی عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے ایس ڈی جی -13 ماحولیاتی ایکشن کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے متعدد اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا شکریہ کہ جن کی بصیرت کی وجہ سے وزارت کم از کم کچھ قابل اقدامات کرنے میں کامیاب رہی۔کیا اس سے وفاقی وزیر برائے سمندری امور علی حیدر زیدی اور دیگر افراد کو اپنی رفتار تیز کرنے کی ترغیب ملے گی یا وہ صوبوں کے ساتھ خود کو جنگ و جدل میں مصروف رکھیں گے؟۔
حیرت انگیز طور پر نظر ثانی شدہ قومی سمندری پالیسی گذشتہ تین سالوں سے وزارت کی شیلف میں پڑی ہے لیکن نیلی معیشت کی بہت سی معنوں میں اہمیت جاننے کے باوجود پانی کے نیچے موجود زندگی کے لئے طے کردہ اہداف پر شاید ہی کوئی پیشرفت حاصل کر سکے۔ یہ سمندری امور کی اصل اہمیت اور ترجیح کو ظاہر کرتا ہے جس میں تمام ایس ڈی جی 13اہداف شامل ہیں۔
ایس ڈی جی 14 کے اہداف کے تناظر میں دیگر بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی اقدامات کے علاوہ پالیسی پر کثیر التحقیق مشورے کرنے کی ضرورت ہے اور اگر حکام سنجیدہ ہوں تو اس معاملے پر جمی گرد ہٹاکر اسے جلد سے جلد منظوری کے لئے کابینہ میں پیش کیا جانا چاہئے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سمندری آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے امتیازی صوابدید کے مینڈیٹ اور دائرہ کار پر پوری طرح الجھن میں ہیں۔ صوبے اپنے اختیارات اور رقوم کی خودمختاری حاصل کرنے پر خوش تھے لیکن بدقسمتی سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکے۔
بحری امور بری طرح متاثرہ شعبوں میں سے ایک ہے جس کو فوری طور پر مخلصانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ مرکز اور صوبوں کے مابین یہ کیسے ممکن ہوگا ایسی صورتحال میں ترقیاتی شراکت داروں اور متعلقہ ماہرین کی ایک زیادہ پیشہ ور ٹیم بہتر کام کرسکتی ہے۔
سمندری شعبے میں تیسری پارٹی کی تشخیص ترقی اوراگلے اقدامات کے لئے ایک بنیاد فراہم کرے گی کیونکہ اب تک ترقی یافتہ تحقیق کی وسعت کے لئے شائد ہی کوئی شراکت ملی ہو اگرچہ ملک میں سمندری تحقیق کے انسٹیٹیوٹ موجود ہیں،ان کی صلاحیت اور قابلیت ایس ڈی جی 14اہداف کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
سمندری امور کے اسٹیک ہولڈرز اور شراکت داروں کیلئے کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں وہ بات چیت اور اپنے خیالات کا تبادلہ کرسکیں کسی مشترکہ پالیسی ، آگاہی بڑھانے اور پہنچانے کے اقدامات میں ساحلی برادریوں کی کوئی شمولیت نہیں،عجیب بات یہ ہے کہ تمام سمندری امور بغیر کسی جامع وژن اور قیادت کے چل رہے ہیں۔
ہمارے پاس تین بندرگاہیں اور 1050 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی ہے جو بحر کی برکات سے مستفید ہوسکتی ہے لیکن ان فوائد کو استعمال کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی مناسب پالیسی اور عملی منصوبہ نہیں ہے۔ایک ہفتہ قبل ملٹی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ ایک ویک اپ عمل شروع کیا گیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ سمندری شعبے میں مؤثر طریقے سے شراکت کرنے کے لئے اسٹیک ہولڈرز اور ترقیاتی شراکت دارپانی کے نیچے کی زندگی کے لئے کس طرح کام کرتے ہیں۔