ناکام سرکاری اداروں کے ہوتے پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ،میاں زاہد حسین

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس کم کیا جائے تاکہ مہنگائی کم ہو،میاں زاہدحسین
پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس کم کیا جائے تاکہ مہنگائی کم ہو،میاں زاہدحسین

کراچی: پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ، ایف پی سی سی آئی میں بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ناکام سرکاری ادارے ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

اگر انکا کوئی حل نہ نکالا گیا تو معیشت کو کبھی بھی بحران سے نہیں نکالا جا سکتا جبکہ ملک کو چلانے کے لئے قرضے لینا ہی واحد آپشن ہو گا ۔

میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ سرکاری کمپنیاں خزانے پر بوجھ ہیں جنکی کرپشن اور کام چوری کے نقصانات کے ازالے کےلئے قوم کو سالانہ کئی کھرب روپے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے ۔

ورلڈ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بجلی کے شعبے نے گزشتہ دس سال میں 45ارب ڈالر ہڑپ کر لئے ہیں جبکہ پاکستان میں بجلی کے پیداواری اخراجات پڑوسی ممالک سے 25فیصد زیادہ ہیں جسکی وجہ بجلی کی خریداری کے ناقص معاہدے ہیں ۔

یہ رپورٹ بنانے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا گیا ہے کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شعبے نے دوگنے سے زیادہ نقصان کیا ہے اور وزراء کے بلند وبانگ دعووں کے باوجود یہ سلسلہ ماضی کے مقابلے میں انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے باوجود اس وقت گردشی قرضہ ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح 2;46;2 کھرب روپے تک پہنچ کر ملکی معیشت کی بنیادیں کھودنے میں مصروف ہے۔ گردشی قرضے اور ناکام سرکاری اداروں کی موجودگی میں پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔

انھوں نے کہا کہ شوکت عزیز کی جانب سے قوم کو بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں تحفے میں دی گئیں جن کی تکنیکی اور کمرشل نقصانات نے معیشت اور عوام کو کہیں کا نہ چھوڑا ۔ ان کے اوسط نقصانات 17.7 فیصد ہیں جبکہ کئی ترقی پذیر ممالک میں یہ نقصانات ایک فیصد ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر پر آئی پی پیز کو اربوں روپے کے جرمانے ادا کرنا ہوتے ہیں جس کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے جبکہ درآمدشدہ ایندھن سے بجلی بنانے کی پالیسی نے بھی معیشت کو کہیں کا نہ چھوڑا ہے۔

مزید پڑھیں:ای سی او چیمبر کی ٹریڈ فیسی لیٹیشن کمیٹی کا بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس

انھوں نے کہا کہ بجلی کے ٹیرف کو زمینی حقائق کے مطابق ایڈجسٹ کیا جائے، نقصانات کم اور شفافیت بڑھائی جائے ورنہ یہ شعبہ ملکی معیشت کو نگل جائے گا۔

Related Posts