وہ قرض چکائے ہیں جوواجب بھی ناتھے!!!!

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مٹی کی محبت میں آپ کووہ قرض بھی چکانے پڑتے ہیں جو آپ پر واجب بھی نہ ہوں لیکن اس کے لیے آپ کا آشفتہ سر ہونا لازم ہے۔میں کیا اور میری اوقات کیا رب کا کرم نہ ہو تو ایک سانس سے دوسری سانس کا سفر بھی نہ ہوسکے۔

سر میں بس ایک سودا سمایا تھا کوئی بے کلی تھی جو بے چین رکھتی تھی۔ محسن بھوپالی یاد آتے تھے ۔۔۔ہائے کہتے تھے کہ کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری اور ظلم کے خلاف میری آواز تو بلند ہونی ہی تھی کیونکہ یہ میری مجبوری تھی۔

یہ عباس تابش مجھے بڑا ظالم آدمی لگتا ہے کہتا ہے کہ یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لوگ کردار نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ مرنا تو ہے ہی ایک دن کیوں نہ اپنا کردار نبھاکر مرا جائے اور نبھایا بھی ایسا جائے کہ لوگ کہیں کہ کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی لوگ رو پڑے تالیاں بجاتے بجاتے۔

نیوز ایکشن کمیٹی میرا آغاز تھا اور کے یو جے (نظریاتی) میرا پڑاؤ ہے۔۔۔ منزل ابھی بہت دور ہے۔۔عزم جواں ہے پرخلوص ساتھیوں کا ساتھ ہے اور نصب العین بالکل صاف ہے کہ اپنے قبیلے کو اس کی کھوئی ہوئی میراث واپس دلانی ہے۔مجھے ان کی عزتوں کا سودا ٹکے ٹکے میں نہیں کرانا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر تو ڈالیں جو سائیکل لینے کی بھی اوقات نہیں رکھتے تھے آج وہ گاڑی سوار ہیں اور اس ترقی کے لیے انہوں نے سودا میرا اور آپ کا کیا ہے۔

آج میں عملی طور پر میدان میں ہوں تو مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ ان مداریوں نے کس بے دردی سے ہمیں لوٹا ہے اور کس حقارت سے ہماری امیدوں کا مذاق اڑایا ہے۔یقین مانیں آپ کو انصاف مل سکتا تھا لیکن آپ کے گھوڑے ریس کے نہیں سرکس کے تھے۔

سرکس کا مالک راتب ڈالتا رہا اور یہ تماشا دکھاتے رہے۔نہ ان کو انصاف کے لیے ملک کی عدالتیں نظر آئیں اور نہ ہی دوسرے ادارے۔ کے یو جے نظریاتی کی عمر محض دو ماہ ہے اور آج ہم سندھ ہائی کورٹ سے لے کر وفاقی محتسب کے ادارے تک میں اپنا مقدمہ لے کر موجود ہیں۔ کیا یہ سالوں سے موجود مداری اور ان کی تنظیمیں اتنی ہی نا سمجھ تھیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ انصاف کا راستہ کہاں سے نکلتا ہے۔ان کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔

یہ اپنا اعتبار کھوچکے ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ وقت آنے پر لوگ بدلتے نہیں ہیں بلکہ بے نقاب ہوتے ہیں۔ یہ مداری بھی بے نقاب ہوچکے ہیں۔

تاریخ لکھے گی کہ جب ان کی برادری کے لوگ بھوک اور موت سے برسرپیکار تھے تو اس وقت ان کے نام نہاد رہنما فیسٹولز اور پکنک کی یادوں میں کھوئے تھے۔

ہم اہنے بھائیوں کو سہارا دینے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔ہم ہر اس جگہ پر کھڑے ہوں گے جہاں ہمارے ساتھیوں پر ظلم ہوگا۔ ہمارے وسائل کم سہی لیکن ہمارے کاندھوں پر کسی سودے بازی کا بوجھ نہیں۔۔۔ہم سوداگر نہیں۔۔۔۔ہم ریاکار نہیں۔۔۔ہم مداری نہیں۔۔۔۔ہم جدوجہد کا استعارہ ہیں۔۔۔ ہم گھپ اندھیرے میں جگنو کی مانند ہیں۔۔۔ہم امید سحرہیں۔۔۔ہم آپ کا آج ہیں اور ہم ہی آپ کا کل ہیں۔۔۔مداریوں کا دور بیت گیا۔۔۔۔ اسٹیج کا پردا گرگیا۔۔۔ ان کا کھیل ختم ہوگیا۔۔۔۔ ایک نئی صبح آپ کی منتظر ہے۔۔

Related Posts