زراعت معاشی مسائل کا حل

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت پاکستان گزشتہ دو سال سے ملک میں معاشی استحکام کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور حکومت کی کوششوں سے خسارہ 70 فیصد کم ہوگیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری ہوئی، وزیراعظم پاکستان عمران خان اور حکومتی ذمہ داران نے اپنی بھرپور کاشوں سے دوست اور پڑوسی ممالک کو مدد پر آمادہ کیا جس کی وجہ سے ہم گزشتہ ادوار کے مقابلے بہتر حالات کی طرف گامزن ہوئے۔

سال 2019-20میں جی ڈی پی کی شرح 1اعشاریہ 5کی شرح تک جانے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے ملک کی جی ڈی پی منفی صفر اعشاریہ 4 تک ہے جس سے معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور اس گراوٹ کے اثرات دور تک دیکھیں جائینگے یہ مسئلہ چند روز میں حل نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کو ایک بار پھر نئے سرے سے حکمت عملیاں ترتیب دینا ہونگی۔

قیام پاکستان سے اب تک ہماری ایکسپورٹ 25 ارب ڈالر تک پہنچ سکی تھی تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے اگر ہم اپنی ایکسپورٹ کو 18 یا 19 ارب ڈالر تک بھی لے آئیں تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہوگاتاہم 20 ارب ڈالر کا ہندسہ تو اب خواب سا لگتا ہے لیکن مثبت پالیسیاں اختیار کرکے اپنی ایکسپورٹ کو 25 نہیں بلکہ 30 ارب سے بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔

حکومت کو ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے پالیسیاں بنانی چاہئیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایکسپورٹ میں حکومت کا کوئی پیسہ نہیں خرچ ہوتا، کاٹن ہویا چاول ان اشیاء کی ایکسپورٹ میں حکومت کو صرف منافع ہوتا ہے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ چاول کے کاشت کار کھاد اور بیج سمیت ہر چیز بغیر سبسڈی کے لیکر بلاواسطہ اور بلواسطہ ہر طرح حکومت کو فائدہ ہی دیتے ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں زراعت کو زیادہ اہمیت نہیں جاتی ، جب تک حکومت زرعی شعبہ پر توجہ نہیں دیگی تب تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا،حکومتی کی عدم توجہی کی وجہ سے پاکستان میں زرعی پیدا وار ایک مخصوص دائرے میں گھوم رہی ہے ، پاکستان میں ہر سال ساڑھے 6 سے 7 ملین ٹن چاول پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے چار ملین ٹن ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے ، دو سے سوا دوملین ٹن مقامی استعمال اور باقی کا چاول اسمگل ہوجاتا ہے،اگر حکومت چاول کی کاشت کا رقبہ بڑھادے تو ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن ہے جس سے حکومت کو زرمبادلہ کی مد میں بھرپور فائدہ ہوسکتا ہے۔

کوروناوائرس کی وجہ سے ہونیوالی معاشی خسارہ کو پورا کرنے کیلئے طویل عرصہ درکا ہے، بیرون ممالک موجود چاول اور ٹیکسائل مصنوعات کے خریداروں نے بڑے بڑے آرڈر کینسل کردیئے ہیںجس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں ، ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ جز وقتی پالیسیوں کا سلسلہ ترک کرکے کل وقتی حکمت عملی ترتیب دے اور کسی بھی صورت صنعت کاروں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔

کورونا کی وباء ملک میں پھیلنے سے قبل 30 لاکھ لوگ بیروزگار تھے اور آج ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بیروزگاری کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہوچکے ہیںاور اگر انڈسٹری کا پہیہ یونہی جام رہا تو مزید بیروزگاری بڑھ سکتی ہے کیونکہ جب تک صنعتوں کا پہیہ جام رہے گا تب تک ہر طرف بھوک ، بدحالی اور بیروزگاری بڑھتی جائے گی۔

اس وقت دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں میں موجود کمرشل قونصلرز کو معیشت کی بحالی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے، کئی ممالک میں موجود کمرشل قونصلر تو اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں لیکن کئی ریاستوں میں ہمارے کمرشل قونصلر ز کا کردار ثانوی ہے۔

کمرشل قونصلرز کو متعلقہ ممالک میں ان اشیاء کی نشاہدہی کرنی چاہیے جن کی وہاں زیادہ ضرورت ہے، لیدر، فارما سیوٹیکل، ٹیکسائل اور زرعی اجناس سمیت ہر وہ چیز جس کی بیرون ممالک ڈیمانڈ ہو ہم وہ اشیاء ایکسپورٹ کرکے بھاری زر مبادلہ کما سکتے ہیں لیکن اس کیلئے کمرشل قونصلرز کا فعال ہونا ضروری ہے۔

Related Posts