امریکہ کی کالم نویس سنتھیا رچی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین تنازعہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ اس دوران چونکا دینے والی ایک پیشرفت سامنے آئی ہے، امریکی بلاگر نے 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں پر اس سے بدتمیزی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ امریکی بلاگرکا معاملہ گذشتہ ہفتے سے ہی ایک تنازع کا شکار تھا،جب انہوں نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بارے میں ٹویٹ کیا تھا۔
انہوں نے سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک پر 2011 میں اسلام آباد میں ان کے ساتھ زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔ جبکہ سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر بھی دست درازی کا الزام لگایا ہے۔
وہ پچھلے کچھ دنوں سے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی تصاویر بھی شیئر کررہی ہیں۔ بلاگر نے مزید دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے بارے میں جو کچھ پوسٹ کیا تھا وہ سب سچ ہے۔
اس سطح پر الزامات کے باعث ٹویٹر پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے سنتھیا رچی کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر الزامات لگانا شروع کردیئے ہیں۔ دوسری طرف کچھ دانشور لوگ اس سلسلے میں تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان میں ہر کوئی دلبرداشتہ ہے، ہم انتظار نہیں کرتے، ہم فوراً کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ ملک کی مختلف عدالتوں میں عصمت دری کے ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں۔ بہت سی لڑکیاں اور خواتین انصاف کے لئے منتظر ہیں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں ان کے لئے آواز نہیں اٹھاتیں۔ پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اور جب عصمت دری کے مسائل پر غور کیا جاتا ہے تو یہ دنیا کے بدترین دس ممالک میں آ جاتا ہے۔
2020 کے پہلے 60 دنوں میں عصمت دری کے 73 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں 5 اجتماعی عصمت دری کے واقعات شامل ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 2019 میں اجتماعی عصمت دری کے 10 مقدمات درج ہوئے تھے جبکہ اس سال کے پہلے دو ماہ کی تعداد پانچ ہے۔ہمیں خواتین کے لئے کسی طرح کا کوئی احترام یا انصاف نظر نہیں آتا۔
حقیقت میں اگر پوچھا جائے تو ہمیں نہیں معلوم کہ سنتھیا رچی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ یہ شیطانی واقعہ پیش آیا ہے تو پھر مجرم کو حراست میں لے کر اسے سزا دی جانی چاہئے۔ اور اگر نہیں تو پھر شخصیات کو بدنام کرنے پر بلاگر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔