1970 کی دہائی سے پاکستان کی معیشت ہمیشہ ہی سے شدید دباؤ میں رہی ہے، مسلسل سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہم ترقی کے لئے ایک طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ صرف ایک چھوٹے سیاسی طبقے کو خوش کرنے کے لئے ہمیشہ ایک قلیل مدتی منصوبہ بنایا جاتا رہاہے۔
ہمیں اپنے ملک کی ترقی کے لئے طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی کرنے کی خاطر معاشی نمونے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم کوئی موثر معاشی نمونہ بنانے یا ان پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح زندگی گزارنے کیلئے اخراجات کو کم کیا جائے اور لوگوں کو معیاری زندگی دی جائے۔
کئی سالوں سے بہت سے ممالک میں غریب لوگوں کو خیرات دینے کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے یہ خوش آئند ہے لیکن اسے معاشی ترقی نہیں سمجھا جاسکتا۔ ہمیں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ حکومت کی طرف سے امدادپر منحصر ہونے کی بجائے اپنی کمائی پر توجہ دیں اور قابل رشک احترام زندگی گزار سکیں۔
لوگوں کو اربوں روپے دینے کے بجائے صنعتوں کی ترقی اور روزگار پیدا کرنے پر پیسہ خرچ کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں معاشی ترقی ہوگی۔ حکومت ریاستی ملکیت والے کاروباری اداروں کو میرٹ پر چلانے میں ناکام رہی ہے اور ادارہ تیار کرنے کے بجائے ہم ان کمپنیوں کی نجکاری کرتے ہیں یا بیچ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں زیادہ بے روزگاری ہوتی ہے۔ حکومت نے کبھی بھی اپنی ناکامیوں کا اعتراف نہیں کیا اور سفید ہاتھی اور نقصان اٹھانے والے کاروباری اداروں کو زبردستی چلایا جاتا رہا ہے۔
اگر ہم اپنے ملک کی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ پہلے لوگوں کو تعلیم دیں اور پھر ہنرمند مزدوروں کیلئے ترقی کی راہ تلاش کریں۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کی بہت بڑی آبادی ہے جو ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں پرسرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارا ملک ترقی کرے گا۔
نجی کمپنیاں منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے اصولوں پر قائم ہیں اور اگر ان پر قابو پانے کے لئے کوئی مدمقابل یا کوئی میکانزم موجود نہیں ہے تو قیمتوں میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کے بجائے تمام شعبوں میں صنعتیں لگائے تاکہ نجی شعبہ غلبہ حاصل نہ کرے اور صارفین سے ضرورت سے زیادہ نرخ نہ لے۔
اس وقت حکومت کے پاس کوئی اسٹیل مل کام نہیں کررہی ہے اور نجی تنظیمیں اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہی ہیں اور بھاری منافع اینٹھ رہی ہیں۔ اس سے سیمنٹ اور تعمیراتی شعبے اور اس سے وابستہ صنعتوں کو نقصان کا سامنا ہے۔
حکومت کو موجودہ اداروں کی ترقی کیلئے تنظیم نو کی طرف جانا چاہیے جس سے ہم اداروں کو منافع بخش بناسکتے ہیں اور حکومتی ملکیتی اداروں پر توجہ دی جائے تاکہ نجی اداروں کی ناجائز منافع خوری کا سدباب ہوگا اور عوام کا معیار زندگی بہتر ہونے کے ساتھ حکومت کو بھی نجی اداروں کے ہاتھوں بلیک میلنگ سے نجات مل جائیگی۔