شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت و کردار اور اسلام کیلئے خدمات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت آج منایا جا رہا ہے
ملک بھر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت آج منایا جا رہا ہے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ آج سے ٹھیک 1401 سال قبل 21 رمضان المبارک کےروز شہید ہوئے جبکہ عشرۂ مبشرہ اور خلفائے راشدین کے چمکتے ہوئے ناموں میں سے اگر کسی کو سب سے اہم سمجھا جاسکتا ہے تو بلا شبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔

اسلام کیلئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمات ان کی پوری زندگی پر محیط ہیں کیونکہ انہوں نے بچپن میں نبئ آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اسلام کے اوّلین اہلِ ایمان میں شمار ہوئے۔ہمارا آج کا موضوع شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت اور کردار ہے۔

اسلام میں پنجتن پاک اور اہلِ بیت کا تصور 

مسلمانوں کیلئے  ذاتِ خداوندی کے بعد سب سے اہم ذاتِ رسول ﷺ ہے اور اگر ہم رسولِ اکرم ﷺ کے بعد کسی کو اہمیت دیں تو اہلِ بیتِ اطہار جنہیں پنجتن پاک بھی کہا جاتا ہے، ان کی باری آتی ہے جن میں پانچ افراد شامل ہیں۔

شریعت کے مطابق حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حسنین کریمین (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم) اور خود رسولِ اکرم ﷺ کو پنچتن پاک یا اہلِ بیت کےنام سے پکارا جاتا ہے جن کے بعد سب سے اہم خلفائے راشدین سمجھے جاتے ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زندگی 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کنیت علی بن ابی طالب ہے یعنی آپ حضرت ابو طالب کے بیٹے اور حضورِ اکرم ﷺ کے داماد ہیں۔ آپؑ کی والدہ کا نام فاطمہ بنتِ اسد تھا۔ آپ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں ہوئی جبکہ بچوں میں سب سے پہلے آپ نے ہی اسلام قبول کیا۔

ایک روایت کے مطابق آپ کی پیدائش چھٹی صدی عیسوی میں ہوئی اور آپ کعبۃ اللہ کے اندر پیدا ہوئے جس کی نسبت سے آپ کو بعض لوگ مولودِ کعبہ بھی کہتے ہیں۔آپ چھوٹی سی عمر سے ہی حضور ﷺ کی کفالت میں آگئے اور وصالِ رسول ﷺ تک آپﷺ کے ساتھ رہے۔

جب حضرت علی نے اسلام قبول کیا، اس وقت ان کی عمر محض 10 سال تھی۔ آپ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ فرماتے تھے مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی سوائے حضور ﷺ کے۔ آپ کی حضور ﷺ سے محبت ناقابلِ بیان حد تک قابلِ رشک تھی۔

حضورِ اکرم ﷺ نے جب اللہ کے دین کی تبلیغ کا فریضہ سنبھالا اور کوہِ صفا پر چڑھ کر نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ مجھے آشوبِ چشم ہے اور بے شک میں عمر میں چھوٹا اور میری ٹانگیں کمزور ہیں، پھر بھی میں آپ کا دست و بازو بن کر دکھاؤں گا۔

بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ

نبئ مکرم ﷺ کا آپ ؑ پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ کفار کو امانتیں واپس کرنے کی غرض سے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ اس وقت آپ کی عمر 22 سال تھی۔ حضور ﷺ کے بستر پر لیٹ کر کفار کا سامنا کرنے کے لیے شیر کا جگر درکار تھا جو حضرت علی کے سوا کسی کے پاس نہ تھا۔

ہجرت کے بعد آپ نے غزوۂ تبوک کےسوا ہر غزوے میں شرکت کی اور بہادری کے بے شمار جوہر دکھائے۔ مرحب کے قلعے پر حملہ آپ کے یادگار کارناموں میں سے ہے۔ آپ نے غزوۂ خیبر میں قلعے کا دروازہ ایک ہاتھ سے اکھاڑ ڈالا اور پوری جنگ میں اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنگ کے بعد خیبر کا وہ وزنی دروازہ 10 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مل کر جو اٹھانا چاہا تو اٹھا نہ سکے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں خدا کی قسم! میں نے خیبر کا دروازہ جسمانی قوت سے نہیں، بلکہ ربانی قوت سے اکھاڑا تھا۔

غزوۂ تبوک میں اہلِ بیت کی حفاظت کیلئے حضور ﷺ نے حضرت علی کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا جس پر آپ کو رنج ہوا۔ حضور ﷺ نے اس موقعے پر آپ کی دلجوئی فرمائی اور اپنے اور آپ کے تعلق کو حضرت موسیٰ و ہارون سے تشبیہ دی۔

فضائل و مناقب

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل بے شمار ہیں۔ آپ کے دشمن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا دشمن قرار دیا۔ فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی میرا دروازہ ہے۔جو علی کا دوست ہے، وہ میرا بھی دوست ہے۔ جس کا میں مولا (مددگار) ہوں، اُس کا علی مولا (مددگار) ہے۔

ہر مسلمان کیلئے حضورِ اکرم اور صحابہ کرام کی محبت اور فرمانبرداری لازم ہے کیونکہ حضورِاکرم ﷺ نےفرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کسی کے قول پر عمل کرو گے، ہدایت پاؤ گے۔

آپ اہلِ بیت میں سے ہیں، یہ آپ کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ دوسرا بڑا اعزاز جو حضرت علی کے پاس ہے وہ یہ ہے کہ آپ سابقون الاولون میں سے ہیں جو آپ کی پیدائش کے باعث نہیں بلکہ آپ کے فعل کے باعث ہے۔ آپ نے سب سے پہلے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

تیسرا اعزاز جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا ہوا وہ یہ ہے کہ آپ عشرۂمبشرہ میں سے ہیں۔ عشرۂ مبشرہ سے مراد ایسے 10 احسن صحابہ ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ہی رسولِ اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت دی۔

چوتھا اعزاز جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ہے وہ آپ کا خلفائے راشدین میں سے ایک ہونا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد خلافت چار اکابر صحابہ کے حصے میں آئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ چوتھے امیر المومنین ہیں۔

خطابات و القابات

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اسد اللہ یعنی اللہ کا شیر کہا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے:

شاہِ مرداں، شیرِ یزداں، قوتِ پروردگار

لافتیٰ الا علی، لا سیف الا ذوالفقار

یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ مردوں کے سردار، خدا کے شیر، پروردگار کی قوت اور مردِ میدان تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی مردِ میدان یعنی بہادر نہیں اور ذوالفقار سے بڑھ کر کوئی تلوار نہیں۔ (ذوالفقار حضرت علی کی تلوار کا نام ہے)۔

یومِ شہادت

سن 40 ہجری میں 19 رمضان المبارک کے روز حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو  فجر کے وقت حملہ کرکے زخمی کردیا گیا۔ جس تلوار سے حملہ آور عبدالرحمٰن ابن ملجم نے آپ کو زخمی کیا، وہ زہر میں بجھی ہوئی تھی۔

جب حملہ آور کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لایا گیا تو آپ کو اس کی آنکھوں سے جاری آنسوؤں کو دیکھنے کے بعد اس پر رحم آیا۔ فرمایا کہ اس سے کوئی سختی نہ کی جائے اور اگر حسن و حسین علیہما السلام اس سے بدلہ لینا چاہیں تو ایک ہی ضرب لگائیں جو اس نے مجھ پر لگائی کیونکہ ظلم و زیادتی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

تلوار میں لگا ہوا زہر آپ کے خون میں شامل ہوچکا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ آپ کو کمزور سے کمزور تر کرتا رہا۔ 21 رمضان المبارک کے روز فجر کے وقت آپ دارِ فانی سے پردہ فرما گئے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے بیٹوں حضرت حسنین کریمین نے آپ کی تدفین کے فرائض انجام دئیے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کوفہ کی عقبی سمت نجف کی سرزمین میں دفن کیا گیا جہاں آج بھی آپ کا مزار مرجعِ خلائق ہے۔ لوگ فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب کے ساتھ ساتھ منتیں مرادیں ماننے کے لیے بھی آپ کے در پر حاضر ہوتے ہیں۔ 

Related Posts