جدوجہدِ آزادئ کشمیر کے راستے کا پہلا پتھر ثابت ہونے والے جواہر لعل نہرو ہمسایہ ملک بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے بھارتی نیشنل کانفرنس کے رہنما کے طور پر سیاست میں ایک اہم مقام بنایا۔
جواہر لعل نہرو کو پنڈت نہرو اور پنڈت جی بھی کہاجاتا رہا۔ قیامِ پاکستان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا کردار اہم ہے جبکہ دوسری جانب گاندھی جی کے بعد اگر ہم کسی اہم رہنما کا نام لے سکتے ہیں تو وہ جواہر لعل نہرو ہے۔
جواہر لعل نہرو کی ابتدائی زندگی
سن 1889ء جواہر لعل نہرو کا سنِ پیدائش جبکہ 14 نومبر یومِ پیدائش ہے۔ الٰہ آباد جواہر لعل نہرو کی جنم بھومی ہے یعنی وہ شہر جہاں جواہر لعل نہرو نے آنکھ کھولی۔ سن 1931ء میں وفات پانے والے موتی لال نہرو جواہر لعل نہرو کے والد تھے۔
موتی لال نہرو پنڈت کمیونٹی سے تھے جنہوں نے جدوجہدِ آزادئ ہند کیلئے بھارتی نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور اس سیاسی جماعت کے 2 بار صدر بھی رہے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں۔ والد کے ساتھ ساتھ جواہر لال نہرہ کی ماں بھی کشمیری برہمن خاندان سے تھیں۔
پنڈت نہرو کا بچپن اور جوانی
پنڈت جواہر لعل نہرو ایک ایسی فضا میں پلے بڑھے جہاں انہیں ہندو روایات سکھائی گئیں۔ ان کی آبائی ریاست آنند بھون کہلاتی تھی۔ ان کے والد نے پرائیویٹ گورنریس اور معلمین کے ذریعے انہیں گھر پر تعلیم دلوائی۔
اپنے بچپن کو خود جواہر لعل نہرو کے الفاظ میں گھٹا گھٹا اور غیر متحرک کہا جاسکتا ہے یعنی اس میں ایسے کوئی یادگار واقعات رونما نہ ہوسکے جو نہرو چاہتے تھے، نہ ہی جواہر لعل نہرو کو شرارتی بچپن کی کوئی جھلک دیکھنا نصیب ہوئی۔
اپنے ایک معلم فرڈیننڈ ٹی بروکس کے زیرِ اثرجواہر لعل نہرو کو سائنس اور ہندووانہ روحانیت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ بعد ازاں انہیں محض 13 برس کی عمر میں تھیوسوفیکل سوسائٹی سے متعارف کروایا گیا تاہم ان کی یہ دلچسپی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی۔
جیسے ہی بروکس نے معلم کے طور پر ملازمت چھوڑ دی، جواہر لعل نہرو نے سوسائٹی چھوڑ دی۔ نہرو نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تقریباً تین سال تک بروکس معلم کے طور پر میرے ساتھ رہے اور میرے ذہن و دل پر بہت اثرات مرتب کیے۔
نہرو بھارت کے ثقافتی و مذہبی ورثے سے متعارف ہوئے۔ اپنے دورِ جوانی میں جواہر لعل نہرو نے دوسری بوئر کی جنگ اور روس و جاپان کی جنگ دیکھی جس سے ان کے قوم پرستانہ جذبات کو شہ ملی۔ نہرو نے خود اعتراف کیا ہے کہ جاپان کی فتح نے ان کے جوش و جذبے کو بڑھاوا دیا۔
پنڈت جواہر لعل نہرو کہتے ہیں کہ قوم پرستانہ جذبات میرے ذہن میں بھر چکے تھے۔ میں نے بھارتی آزادی اور ایشیاء کی آزادی کو یورپ کی تحریکوں سے جوڑ لیا۔ سن 1905ء میں اسکولنگ کا دور شروع ہوا۔
انگلینڈ میں ہیرو نامی اسکول میں جواہر لعل نہرو جی ایم ٹریولیان نامی ایک مصنف کی کتابوں سے برے متاثر ہوئے جو انہوں نے اپنے تعلیمی انعامات کے طور پر حاصل کی تھیں۔ وہ غریبلدی(Garibaldi) کو ایک انقلابی ہیرو سمجھتے تھے۔
وکالت کا آغاز
جواہر لعل نہرو 1912ء میں انگلینڈ سے وکالت کی تعلیم حاصل کرکے لوٹ آئے اور الٰہ آباد ہائی کورٹ میں رجسٹر ہونے کے بعد بیرسٹر کے طور پر پریکٹس شروع کردی لیکن ان کی فطرت میں سیاست بس چکی تھی۔ انہیں وکلاء کی صحبت اچھی نہیں لگتی تھی۔
انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے: فضا میرے حق میں سازگار نہ تھی اور مجھ پر زندگی کے نئے معنی آشکار ہونے لگے۔ دوسری طرف قومی سیاست آہستہ آہستہ آنے والے برسوں میں نہرو کی سوچ کا دھارا موڑنے لگی۔
سیاسی جدوجہد
سن 1916ء میں جواہر لعل نہرو پہلی بار گاندھی جی سے ملے جس سے ان کی سوچ میں ایک واضح تبدیلی آ گئی۔ سن 1920ء میں اترپردیش کے علاقے پرتاب گڑھ میں کسان مارچ کا اہتمام کرنے کے بعد جواہر لعل نہرو نے تحریکِ عدم تعاون میں بھی خدمات سرانجام دیں۔
تحریکِ عدم تعاون میں سن 1920ء اور سن 1922ء میں جواہر لعل نہرو کو 2 بار جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ 1923ء میں انہیں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا اور انہوں نے انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی سمیت متعدد ممالک کے دورے کیے۔
سن 1928ء میں جب جواہر لعل نہرو سائمن کمیشن کے خلاف جلوس کی قیادت کر رہے تھے تو ان کو لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا جس میں نہرو زخمی ہو گئے۔ 29 اگست 1928ء کی نہرو رپورٹ پر نہرو کے دستخط اہم تھے جو ان کے والد موتی لال نہرو کے نام پر بنائی گئی۔
سن 1928ء کی اس نہرو رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ہی قائدِ اعظم محمد علی جناح نے وہ تاریخی 14 نکات پیش کیے جو مسلمانوں کے حقوق کو واضح کرتے ہیں جس کے بعد ہندو مسلم سیاست الگ الگ انداز سے دیکھی جانے لگی۔
بعد ازاں سن 1940ء میں جواہر لعل نہرو انفرادی ستیاگرہ کی پاداش میں گرفتار کر لیے گئے۔ یہ گرفتاری 31 اکتوبر کو عمل میں لائی گئی۔ دسمبر 1941ء میں اس قید سے رہائی ملی۔ 7 اگست 1942ء کی تاریخی بھارت چھوڑو قرارداد جواہر لعل نہرو کی پیشکش تھی جس کے بعد ایک بار پھر اسیری کا دور آیا۔
یہ آخری بار گرفتاری طویل ترین ثابت ہوئی جو 8 اگست 1942ء میں عمل میں لائی گئی تھی۔ 6 جولائی 1946ء کو چوتھی بار جواہر لعل نہرو کو آل انڈیا کانگریس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
وزیرِ اعظم کا عہدہ
سن 1947ء میں جب بھارت آزاد ہوا، اس وقت سے لے کر 1964ء تک یعنی ان کے سنِ وفات تک جواہر لعل نہرو بھارت کے وزیرِ اعظم رہے جس کے دوران انہوں نے بھارت میں جمہوریت کو بے حد استحکام عطا کیا۔
پنڈت جواہر لعل نہرو بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم ہونے کے ناطے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے سب سے بڑے ذمہ دار مانے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے 17 سالہ طویل ترین دورِ اقتدار کے باوجود مسئلۂ کشمیر کبھی حل کرنے کی کوشش نہ کی۔
مسئلۂ کشمیر اور جواہر لعل نہرو
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جواہر لعل نہرو ہی وہ شخص ہے جو اگر چاہتا تو مسئلۂ کشمیر پاک بھارت آزادی کے آغاز پرہی حل ہوسکتا تھا۔ سن 1947ء میں جواہر لعل نہرو نے کہا کہ ہم کشمیری عوام کی رائے جانے بغیر کشمیر کی قسمت کا حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے۔
بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امن قائم ہونے کے بعد کشمیر کا الحاق عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے ریفرنڈم کے ذریعے وہاں کے عوام کی پسندیدہ ریاست سے کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بات نومبر 1947ء میں کہی۔
نہرو کی طبعی موت
سن 1962ء میں نہرو کی صحت گرنے لگی تھی۔ سن 1964ء میں بھارتی شہر دہرادون سے واپسی پر نہرو کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی اور وہ رات 11 بج کر 30 منٹ پر معمول کے مطابق آرام کیلئے چلے گئے۔
صبح 6 بج کر 30 منٹ پر نہرو نے پشت میں درد کی شکایت کی۔ ڈاکٹروں نے انہیں فوری طور پر دیکھا اور طبی امداد مہیا کی، تاہم جواہر لعل نہرو اچانک نیچے گر کر بے ہوش ہو گئے اور اس وقت تک بے ہوش رہے جب تک ان کی موت واقع نہ ہو گئی۔
بھارتی لوک سبھا میں 27 مئی 1964ء کو وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے انتقال کی خبر 2 بجے دوپہر کو دی گئی جبکہ ان کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک بتائی جاتی ہے۔