غیر ملکی تارکین وطن کی مشکلات

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عالمی وبائی صورتحال کے دوران بہت سارے پاکستانی شہری جو دوسرے ممالک میں آباد تھے،وبائی مرض کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث وطن واپسی کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔قومی سلامتی کے معاون خصوصی معید یوسف کے مطابق، 88 ممالک میں ایک لاکھ پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔

پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی اکثریت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہے، جو وطن واپسی کے خواہش مندہیں۔ حکومت 38 ممالک سے 15,000پاکستانیوں کو پہلے ہی وطن واپس لاچکی ہے لیکن متعدد دیگر افراد کو واپس لانے کی کوششوں میں مصروف ہے، دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ 70,000پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں۔

وبائی صورتحال کے دوران عالمی سفر پر پابندی ہے جس کے باعث ایئر لائنز نے پروازیں معطل کردی ہیں جبکہ بہت سے ممالک نے ہوائی اڈے بند کردیئے ہیں۔ مسافر کوششوں میں ہیں جلد سے جلد اپنے وطن کو لوٹ آئیں۔اس صورتحال میں بہت سے افراد کو ملازمت فارغ کردیا گیا ہے جبکہ بعض ویزا ختم ہونے کے بعد ہنگامی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔جبکہ متحدہ عرب امارات نے ان مزدور وں کیلئے جو اپنے ممالک نہیں لوٹ پائے انہیں سہولتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت اب خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں کو مختلف ممالک سے لانے کے لئے کوشاں ہے۔امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے پہلے ہی خصوصی پروازوں کو چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ در حقیقت، پی آئی اے کو پہلی بار امریکہ کے لئے براہ راست پروازیں چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔ کورونا وائرس کے بحران نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جس کے باعث دوسرے ممالک میں پھنسے ہوئے شہریوں کی واپسی کے لئے فوری فضائی خدمات کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو 88 ممالک میں سے بہت سے ممالک تک رسائی حاصل نہیں ہے جہاں اس کے شہری مقیم ہیں،ان کو لانے کے لئے متبادل انتظامات کرنا ہوں گے۔ جبکہ بہت سے افراد ایسے ہیں جو اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وطن واپس آنے کی خواہش نہیں رکھتے۔

دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی شہری COVID-19وائرس کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔ ذرائع نے خود انکشاف کیا ہے کہ واپس آنے والے شہریوں میں سے بارہ فیصد کے مثبت کیسزسامنے آئے ہیں۔ یہ نمایاں طور پر بڑی تعداد ہے،یہ صورتحال وبائی مرض پر قابو پانے کے لئے لاک ڈاؤن کی کوششوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔اس کے لئے قرنطینہ سینٹرز کومزید سہولیات کی ضرورت ہوگی اور صحت کی سہولیات کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوگا۔

یہ بات خارج ازامکان نہیں ہے کہ یہ پاکستانی شہری کسی بھی وقت جلد ہی پاکستان واپس آجائیں گے اور اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اب انہیں پاکستان میں روزگار اور دیگر سہولیات درکار ہوں گی، جس سے موجودہ وسائل پر مزید بوجھ پڑے گا۔ جبکہ آنے والے سالوں میں ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔

ان تارکین وطن کو غیر ضروری سفر سے گریز کرنا چاہئے اور صرف حقیقی ہنگامی صورت حال میں ہی واپسی کا سوچنا چاہئے۔ حکومت کو ان کی حالت زار کو سمجھنا چاہئے اور پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو مرحلہ وار انداز میں وطن واپس لانا چاہئے۔

Related Posts