بندر کو بادشاہ بنانے کا انجام

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جنگل کے جانور شیر سے اس لیے پریشان تھے کہ وہ ان کے بچے آسانی سے کھاجاتا تھا ، اپنے بچوں کو بچانے کے لیے جانوروں نے ایک اجلاس کیا کہ اس کا کوئی تو حل نکالا جائے جس کے لیے انہوں نے یہ طے کیا کہ سب جانوروں میں بندر ایک ایسا جانور ہے جو بہت پھرتیلا ہے اور شیر سمیت دیگر درندوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے اس لیے اسے اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں،مرتے کیا نہ کرتے ، سب نے اتفاق کر لیا۔

بندر بادشاہ بنا تو جانوروں میں ایک امید کی کرن جاگی ، پھر ایک دن اطلاع ملی کہ شیر اسی طرف آرہا ہے اور وہ جانوروں کے بچے کھا جائے گا ۔

جانور بندر کے پاس پہنچے اور کہا کہ شیر ان کے بچے کھانے آرہا ہے ،اس لیے بادشاہ سلامت ہمارے تحفظ کے انتظامات کریں ، بندر نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں جب میں ہوں تو شیر کی یہ درندگی نہیں چلے گی ، میں ابھی بندو بست کرتا ہوں۔

پھر بندر ایک ڈال سے دوسری ڈال اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتا دکھائی دیا تو جانوروں نے آپس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے درست فیصلہ کیا بندر کو بادشاہ بناکر ۔

دیکھو بادشاہ سلامت کتنی تیزی سے ہمارے تحفظ کے انتظامات کر رہے ہیں، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ شیر وہاں پہنچ گیا اور کچھ ہی دیر میں وہ جانوروں کے سارے بچے ایک ایک کر کے کھا گیا، اس دوران بھی بندر بدستور درختوں پر چھلانگیں لگاتا دکھائی دیتا ہے تاہم شیر اطمینان سے جانوروں کے بچوں کا شکار کر کے روانہ ہو جاتا ہے، جانوروں پر ایک سکتہ طاری ہوتا ہے اور ان کے پاس ایک دوسرے سے مل کر صرف رونے کے سوا کچھ نہیں بچتا ، ایسے میں بندر درختوں سے نیچے آکر کہتا ہے کہ آپ سب نے دیکھا کہ میں کتنی نیک نیتی سے بندوبست کرنے میں لگا ہوا تھا مگر جو ہوا وہ سب اللہ کی طرف سے ناگہانی تھا ، شاید ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔

پاکستان میں بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارے گناہوں کی سزا ہمیں مل رہی ہے ۔ ہم نے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کیا ہے جو چھلانگیں تو لگاتے دکھائی دیتے ہیں مگر جب بھی شیر آتا ہے بچے نگل کر با آسانی چلا جاتا ہے۔

ماضی میں دیکھیں تو پاکستان خصوصاََ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود حکمرانوں کی چھلانگیں دکھائی دیتی رہیں مگر آج تک دریا سندھ کے کناروں اور بڑی نہروں کے پشتے پکے نہیں کیے جاسکے ۔

تھر پارکر ضلع میں غذائی قلت اور ادویات کی کمی کے سبب سیکڑوں معصوم نومولود بچے ایسے ہی مر گئےجیسے جنگل میں شیر کھا گیا تھا اور بندر آج بھی اسی طرح چھلانگیں لگا کر بندوبست کرتا دکھائی دیتا ہے، سندھ خصوصاََ کراچی میں کتوں کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہو گئی اور کتوں نے کئی افراد خصوصاََ بچوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا مگر کتوں کے کاٹے کی دوا ( ریبیزویکسین و انجکشنز) سندھ میں دستیاب نہیں جس کے باعث کئی غریب جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

کتو ں کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنے کی ذمہ داری کیا حکومت سندھ کی نہیں تھی؟ ۔ پیپلز پارٹی کے سندھ میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے شہر قائدجسے دنیا روشنیوں کا شہر کہتی تھی اب کچے کا ڈھیر نظر آتا ہے ، اس ڈھیر سے تعفن شہریوں کی قسمت میں انہیں حکمرانوں نے لکھ دیا ہے۔

کچروں کے ڈھیر سے شہریوں کو چکن گونیا، ملیریا ، ڈائریا، اور ایسی درجنوں وبائی بیماریاں نصیب ہوئیں خصوصاََ چکن گونیا کے باعث شہریوں کی بڑی تعداد جوڑوں کے درد میں تا حیات مبتلا ہو چکی ہے،اس وقت بھی حکمراں یہ ہی پیپلز پارٹی تھی۔

آج بھی جب دنیا بھر میں کورونا وائرس نے وبائی شکل اختیار کر کے پاکستان کا رخ کیا تو ہمارے حکمرانوں کی چھلانگیں پوری دنیا نے دیکھیں اور ان چھلانگوں کی بڑی تعریف کی گئی ۔ ہر طرف سندھ حکومت کے اقدامات پر صوبائی کابینہ اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے قصیدے زبان زدعام ہو گئے تھے مگر ان چھلانگوں سے 3 کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی کو جتنا نقصان کورونا نے براہ راست نہیں پہنچایا اس سے 10گنا جی بالکل 10 گنا نقصان ان چھلانگوں نے پہنچایا ہے۔

لاک ڈاؤن سے قبل حکومت سندھ نے واویلا کیا تھا کہ انہوں نے ایسا بندوبست کر لیا ہے کہ یومیہ اجرت کمانے والا طبقہ بھوکا نہیں سوئے گا اور ایسے راشن تقسیم کریں گے کہ کسی کی سفید پوشی کو کوئی نقصان نہ پہنچ پائے اور کسی دوسرے کو علم ہی نہ ہو کہ راشن دیا گیا ہے مگرلاک ڈاون کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود راشن کس کو تقسیم کر دیا گیا اس سے مستحقین بھی واقف نہیں ہیں۔

راشن کی تقسیم سے لیے کر طبی سہولیات کے نام پر 12ارب روپے کی بندر بانٹ تک تمام کار گزاریاں مشکوک نظر آرہی ہیں ۔ سندھ حکومت کے اقدامات سے کورونا کے مریضوں میں کمی نہیں آئی تاہم ملک بھر میں جس کوویڈ 19کی خاطر آپ نے کراچی سمیت سندھ کے اسپتالوں میں کوویڈ 19 ایمرجنسی نافذ کی اور او پی ڈی بند کرا دیں مگر اس کا کوئی متبادل پیش نہیں کیا آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ماہ میں پورے پاکستان سے کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 260کے قریب رہی تاہم دیگر امراض میں مبتلا مریض جو آپ کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے باعث علاج سے محروم رہ گئے وہ صرف کراچی میں 15 روز میں مرنے والے 400 سے زائد افراد ہیں جو دل کا دورہ ، ہائی بلڈ پریشر، ٹی بی، کینسر، دمہ،سمیت متعدد بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود محض اس لیے ہلاک ہو گئے کہ انہیں علاج کی سہولت دینے پر پابندی تھی۔ اس کاذمہ دار کون ہوگا ؟۔

لاک ڈاؤن میں آپ نے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف ، فورسز، فوڈ پروڈکٹ کا کام کرنے والوں، صحافیوں، بلدیاتی ملازمین اور فلاحی کارکنوں کو باہر نکل کر کورونا سے جنگ کرنے کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے اہلکاروں  کو یہ پیغام نہیں دیا کہ ان کو پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ جگہ جگہ میڈیکل اسٹاف، صحافیوں ، اور فوڈ پروڈکٹ کے کارکنوں کو بھی روک لیا جاتا ہے، بعض سڑکیں اچانک سب کے لیے بند کردی جاتی ہیں۔ اس سے کورونا کے خلاف جنگ لڑنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ دوسری طرف جن کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے وہ اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ آپ ہی نے پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی لگا رکھی ہے۔

ایسے میں گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں تو ان میں خرابی بھی پیدا ہو جاتی ہیں جن کی مرمت اس لیے ممکن نہیں کہ آپ نے تمام ہی کاروبار بند کرا دیے ہیں، گھروں میں لوگ بند ہیں اور گھروںمیں کئی چیزیں مرمت کی منتظر ہیں ، جن میں بعض بجلی کی اشیاء، پنکھے، استری،واشنگ مشین، پانی کی لائنیں ، سینیٹری، پانی کی موٹریں اور دیگر اشیاء کئی گھروں میں خراب ہیں جس سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔دوکانیں ایک ماہ سے زائد عرصہ سے بند ہیں اور لوگوں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں، ایسی ضروری اشیاء کی دکانیں اگر نہ کھولی گئیں تو مسائل بڑھتے جائیں گے ، اسی طرح اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں 20 تا 50 فیصد اضافہ شہریوں کے لیے عذاب بن گیا ہے ،یہ بھی تو آپ کی ہی ذمہ داریاں ہیں۔ کیوں آپ کی ضلعی انتظامیہ صرف راشن کی بندر بانٹ میں مصروف ہے جو کسی کو ملتا ہوا دکھائی نہیں دیتا،مناسب یہ ہوگا کہ حق حکمرانی ادا کریں صرف چھلانگیں لگانے سے شیر بچے کھانا نہیں چھوڑے گا۔

Related Posts