اس بار رمضان با لکل مختلف ہے۔ ہر طرف خاموشی اور اس کی روایتی چمک ماند پڑ گئی ہے، اس بار رمضان کا استقبال بھی اس طرح نہیں ہوا جیسا پہلے ہوتا رہا ہے۔اس کی بنیادی یہی ہے کہ انتظامیہ کا زورہے کہ روزوں کے دوران تراویح، افطاری کے لئے ضروری چیزوں کی خریداری،کام کی جگہوں اور مساجد میں احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔
اگرچہ کورونا وائرس سڑکوں، بازار کی جگہوں، مساجد، دفاتر، اسپتالوں اور مکانات کوخاص طور پر نشانہ بنا سکتا ہے، جبکہ ہمارے معاشرے کے بعض افراد اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کررہے اور اپنے تمام امور باقاعدگی سے سرانجام دے رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل بھی نہیں کررہے۔
اس ماحول میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا یہ یقین ہے کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے یہ وائرس نہیں پھیلتا اور وہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔حقیقت تویہ ہے کہ بہت سے علمائے کرام بھی اس خطرے کو یکسر نظر انداز کرنے کی تبلیغ کررہے ہیں اور لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ، معاشرتی اور مذہبی اجتماعات پر اصرار کررہے ہیں۔
ان کا ماننا یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی جانب سے یہ امت کے خلا ف سازش کی جارہی ہے،عام طور پر کچھ لوگوں کا ایسا طبقہ بھی ہے جو غیرمنطقی موازنہ کرتے رہتے ہیں، جان بوجھ کر نماز جمعہ، تراویح، تیلیغی اجتماعات اور بھرے بازاروں میں پہنچ کرحوصلہ افزائی کرکے معاشرتی فاصلوں کی خلاف ورزیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ محض افسوسناک اور انسانیت سوز ہے۔
سوشل میڈیا پر دیکھا گیا کہ ایک ماں کے پاس اس کا بیٹا روتا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے گیا لیکن مسجد کو جمعہ کے کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا، اس کی ماں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جب بازاروں میں دکانیں کھولنے سے کوئی کورونا کا خطرہ نہیں تو مساجد میں خطرہ کیسے ہوسکتا ہے، یہ اس کی اپنی سوچ ہوسکتی ہے لیکن وائرس سے مرنے والوں کے واقعات سب کے سامنے واضح ہیں۔
اس ماں کے بیان کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور دیگر علمائے کرام حمایت کررہے ہیں، جبکہ حکومت کو حقیقت پسندی کو دیکھتے ہوئے کسی کو خوش کرنے کے بجائے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلے لینے ہوں گے، ریاست کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بہتر فیصلے کرنے ہوں گے۔
اسمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر چیزوں کے بارے میں بھول جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کوویڈ انفیکشن (کورونا وائرس)ایک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔اگر یہ وائرس صحیح معنوں میں پھیل گیا تو ہزاروں افراد کی موت واقع ہوسکتی ہے، غریبوں کو بھوک سے مرنے کا خوف ہے لیکن وائرس سے مرنے کا خوف نہیں ہے۔
آئیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ اپنے ارادوں کو مضبوط کریں اور مکمل تالا بندی کریں، کم سے کم دو ہفتوں کے لئے فوری طور پر کرفیو نافذ کریں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ مذہبی معاشرتی اور جذباتی تحفظات سے قطع نظر ہوکر کارروائی کی جائے۔وقت ختم ہورہا ہے، ہمیں اس وباء سے نمٹنے کے لئے جلد فیصلہ لینا ہوگا۔
محبوب قادر