آئی ایم ایف نے پہلے ہی متنبہ کیا ہے کہ دنیا کورونا وائرس کے وبائی مرض کے باعث عالمی معاشی بحران کا شکارہوسکتی ہے۔
ورلڈ بینک نے ایک سنسنی خیز رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 1.8 بلین باشندوں پر مشتمل سب سے گنجان آباد خطے میں واقع جنوبی ایشیاء بدترین معاشی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔
وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات کا پہلے ہی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کاروباری سرگرمیاں اور روز مرہ معمولات رکے ہوئے ہیں۔
دہائیوں بعد حاصل کی گئی ترقی کا خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، روز مرہ کمانے والے مزدور بھی کام سے محروم ہیں اور لاکھوں افراد کو غربت کا خطرہ لاحق ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اس تمام صورتحال کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ درآمدات اور بر آمدات بھی ختم ہوچکی ہیں اور سرمایہ کار بھی اپنے حوصلے پست کر بیٹھے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بدترین صورتحال اور طویل عرصے سے جاری لاک ڈاؤن سے اس سال ترقی کی شرح اوپر نہیں جائے گی اور یہ سلسلہ 2021تک جاری رہ سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریبوں کو تحفظ فراہم کرنے میں تمام علاقائی حکومتیں ترجیح دیتی ہیں،مگر اس صورتحال میں انہیں صحت اور معاشی طور پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک اور بری خبر یہ بھی ہے اس رپورٹ میں پاکستان کو ان اقوام میں شامل کیا گیا ہے جو ”بدترین مندی” میں جاسکتی ہیں۔
پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2.2 فیصد کم ہوسکتی ہے کیونکہ حکومت کے لئے فوری طور پر یہ چیلینج ہوگا کہ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پالیا جائے جس سے معاشی نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے اور غریب لوگوں کی مددکی جاسکتی ہے۔جبکہ دیکھا جائے تو حکومت غریبوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے موثر اقدامات کررہی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وبائی بیماری کے باعث کم آمدنی والے افراد خاص طور پر مزدور طبقے کو نقصان پہنچے گا،جن کی معاشرتی اقدار و دیگر چیزوں تک رسائی نہیں ہے۔
اس سے جنوبی ایشیاء میں عدم مساوات کو تقویت ملے گی کیونکہ بہت سے لوگ غربت میں چلے جائیں گے اور ساتھ ساتھ غذائی تحفظ کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
اگر چہ معاشی بحران بہت بڑا ہے ساتھ ہی یہ توقع کی جارہی ہے کہ جنوبی ایشیا اگلا کورونا وائرس کا مرکز بن سکتا ہے۔ خطے میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت سے معاملات کی اطلاع نہیں ہے لیکن معاملات کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔
بہت سارے ممالک ابھی بھی بنیادی صحت کی دیکھ بھال اور حفاظتی احتیاطی تدابیر کے لئے جس طرح جدوجہد کرنی چاہئے ویسے نہیں کررہے، جس سے امکان ہے کہ اس سے خطہ بہت زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔اگرچہ اہم اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ سال اس دنیا اور خطے کے لئے طویل اور سخت سال ہوگا۔