بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مذہب کی بنیادوں پر نہ صرف میں بلکہ لاکھوں ترقی پسند مفکرین تقسیم ہند کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور ہم ہندوستانی آئین کی سیکولر فطرت کو پرکشش بناتے تھے جو ذات پات اور مذہب سے بالاتر ہو کراس کے شہریوں کو مساوی حقوق عطا کرتا تھاتاہم نریندرامودی کے وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے اور آخر کار محمد علی جناح  کی 70 سال کے بعد جیت ہوئی۔

ہندوستانی مسلمانوں کے بگڑتے ہوئے حالات سے متعلق مضامین کی سیریز کا یہ پہلا مضمون ہے۔ ان مضامین میں ہندوستانی مسلمانوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مختلف جہتوں اور زاویوں سے دیکھا جائے گا جیسے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تشدد ، میڈیا میں ہندوستانی مسلمانوں کی تصویر کشی ، مودی اور ہندوستانی مسلمان ، ہندوتوا ، آر ایس ایس اور ہندوستانی مسلمان شامل ہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تشدد
بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ ہی 1992 میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تشدد کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔

بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے عروج نے مضبوط مسلم اقلیت کو پسماندہ کردیا۔ تقسیم ہند کے بعد پہلا قابل ذکر فرقہ وارانہ تشدد 1962 میں جبل پور میں ہوا۔ ہلاک ہونے والوں کی سرکاری تعداد 55 ہے تاہم غیر سرکاری تعداد200 ہے۔

ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں نیشنل انڈین کانگریس پارٹی کے ایک گروہ نے 1969 میں احمد آباد میں فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز کیا۔

سرکاری تعداد کے مطابق 660 افراد فسادات میں ہلاک ہوئے جن میں 430 مسلمان اور 25 ہندو تھے۔ 1970 کی دہائی میں ہونیوالے فرقہ وارانہ فسادات میں 400 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں جن میں زیادہ تر مرنیوالے مسلمان تھے۔

1977 میں انتخابات جیتنے کے بعد ایک نئی تشکیل شدہ پارٹی نے جو بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں تبدیل ہوگئی اس پارٹی نے حکومت بنائی۔ ان کی نگرانی کے تحت 1978 سے لے کر اب تک کئی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔

یہ ہنگامے وارانسی ، جمشید پور اور علی گڑھ وغیرہ میں ہوئے جن کی منصوبہ بندی آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) نے کی تھی۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ تھا اور ان کی نگرانی میں کئی فسادات ہوئے۔

1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد احمد آباد ، سورٹھ ، دہلی ، کانپور ، بمبئی وغیرہ میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ، اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ اورموجودہ وزیر اعظم نریندر امودی ، اور ان کی پارٹی بی جے پی ہی فسادات کا موجب تھی۔

2002 میں گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کوقتل کیا گیا ، گھروں کو نذر آتش کیا گیا اور خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔

ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد صرف فرقہ وارانہ اور جسمانی ہی نہیں ہے بلکہ معاشی و سیاسی بھی ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ مسلمانوں کے معاشرتی و اقتصادی حالات کا پتہ لگایا جاسکے۔

کمیٹی کے نتائج کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی حالات ہندوستان کی دیگر برادریوں سے کہیں زیادہ خراب ہیں اور جس کے پیچھےریاستی اداروں کا ہاتھ کار فرماہے۔

بی جے پی پارلیمنٹ سے یکے بعد دیگرے ایسے قوانین پاس کررہی ہے جیسے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی جس کی وجہ سے مسلمان پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔

ان قوانین کے خلاف ملک بھر میں احتجاج بھڑک اٹھا اور بی جے پی حکومت مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹ رہی ہے۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ ہند کے دوران دہلی میں ہنگامہ خیز فسادات اور تشدد کی لہر پیدا ہوئی جس میں 50 سے زائد جانیں  ضائع ہوئیں جو مذہب کی بنیاد پر ایک برادری کو نشانہ بنانے کے منظم منصوبے کا مظہر ہے۔

Related Posts