کورونا وائرس نے دوسری جنگ عظیم کے بعدایک ہی وقت میں دنیا کو جانی ومالی طور پر تباہ کرکے رکھ دیا ہے چونکہ کورونا سے بچاؤ کا طریقہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہی کو قرار دیا گیا ہے ، جیسا کہ چین میں بدترین سطح پر پہنچنے کے بعد لاک ڈاؤن ہی کے نتیجے میں مرض پر قابو پایا گیا۔
پاکستان چونکہ دو طرح کے بحرانوں کا شکار ہے ، پہلا یہ کہ سہولتوں کا فقدان ہے اور معیشت تباہ حال ہے، ایک طرف بھوک، افلاس، غربت اور کاروبار کی ہولناک صورتحال ہے تو دوسری طرف کورونا وائرس کی موذی اور ہلاکت خیز وباء ہے ۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہمیں اس وقت دونوں سے بچنا ہے لیکن کورونا کہتا ہے کہ مجھ سے بچنا ہے تو گھروں میں محدود رہو اور بھوک وافلاس کہتی ہے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو گھر سے باہر نکلو۔
اسوقت متوسط اور نچلےدرجہ کے تاجر، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور سمیت آجر ، اجیر اور صنعت کار اور محنت کش سب ہی ایک بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہیں لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اس صبر آزما وقت میں نچلا طبقہ حوصلہ اور ہمت ہار چکا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے باوجود نچلا طبقہ گھروں سے باہر نکل آیا ہے جنہیں روکنے میں قانون نافذ کرنیوالے ادارے بے بس اور ناکام نظر آتے ہیں چونکہ ہماے ملک میں وسائل کی شدید کمی ہے اس لئے حکمران عوام اور خاص طور پر نچلے طبقے کو اس بحران میں مناسب مدد فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
اس لئے ایک بہتر اقدام یہ ہوگا کہ حکومت اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر کوئی ایسا راستہ نکالے جس میں جزوی طور پر کاروبار شروع کیا جاسکے جس میں دکانداروں کو سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ کورونا سے بچاؤ کیلئے تمام احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھے جس سے روزگار کا پہیہ بھی چل سکے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ چند روز میں ایسا بحران پیدا ہوسکتا ہے جس میں کراچی میں 80 فیصد تاجر اور صنعت کار اپنے ملازمین کو ملازمتوں سے فار غ کردینگے اور نوکریوں سے فارغ ہونیوالے افراد بھی ان پریشان حال لوگوں میں شامل ہوجائینگے جن میں 40 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے اور 30 فیصد غریب ترین اور ایسے طبقے جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہےاور مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حال بھی صومالیہ، ایتھوپیا جیسے ممالک کی صف میں شامل ہوجائیگا۔
ہمارا ملک ان مغربی ممالک کے مقابلے میں معاشی اعتبار سے بہت نچلی سطح پر ہے جو اس وقت کورونا وائرس کیخلاف بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ان کے پاس تمام تر وسائل ناصرف موجود ہیں بلکہ ان میں اموات کی شرح بھی کئی گنا زیادہ ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں، ان کی بے بسی اور حالت زار دیکھنے کے بعد ہمیں اپنے آپ کو اس وباء سے بچانا ہے تاکہ ہم ایسے ممالک کی صف میں شامل نہ ہوجائینگے جہاں یومیہ ہزاروں افراد جان کی بازی ہار رہے ہیں کیونکہ اگر کورونا کی وباء پاکستان میں پوری طرح پھیل گئی تو اس کی ہلاکت خیز ی اور معاشی اثرات سے نکلنے میں پاکستان کو کئی دہائیاں مطلوب ہونگی۔
اس قومی بحران سے بچنے اور نمٹنے کیلئے ہمیں وفاق اور صوبے عجلت اور بدحواسی میں فیصلے کرنے سے گریز کریں ، کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے اور ان وجوہات کو ختم کیا جائے اور ان وجوہات کو ختم کیا جائے جن کی بناء پر آج لاک ڈاؤن توڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
مشکل کی اس گھڑی میں ہم سب کو ملکر ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرنے کی ضرورت ہے، صاحب حیثیت و صاحب ثروت آگے آئیں اور آزمائش کے اس دور میں نچلے اور دووقت کی روٹی سے محروم طبقات کی مدد کریں۔ اس وقت کوشش یہ ہونی چاہیے کہ غریب ومتوسط طبقے کے پاس دس سے 20 دن کا راشن موجود ہواور ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے اور حکومت بھی مقدور بھر متوسط ، غریب اور غریب ترین لوگوں کی ممکنہ حد تک مدد کرے تاکہ ان کے اس سطح پر پہنچنے کے خدشات پیدا نا ہوں جس سے واپسی مشکل ہو۔
15 اپریل کو مارکیٹیں کھولنے کا جذباتی فیصلہ کرنے والے بیشتر افراد مارکیٹوں کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں اور موجودہ مسائل کا ان کو درست ادراک بھی نہیں ہے، یہ عاقبت نااندیش لوگ ہیں جو ملک کو انارکی اور ایک بدترین بحران کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی اقدام جس سے کورونا کے متاثرین کی تعداد بڑھے بہت ہولناک ہوگااور ایک ماہ کی بندش کے بعد اس طرح کے اقدام کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں تاہم محتاط طریقے سے کاروبار کیلئے کوشش کرنے چاہیے، اس وقت یومیہ چار ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے جس سے تمام تاجروں کو شدید پریشانی لاحق ہے، بڑی بڑی صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ صنعت کاروں کے پاس بینکوں کا سود دینے کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں، انہوں نے ملازمین کو برطرف کرنا شروع کردیا ہے جس سے مزید مسائل بڑھیں گے۔
ملک کو بلاشبہ اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن ایسے میں کوئی بھی غلط فیصلہ بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے تاہم ملک کے حالات کا مد نظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ مغرب کی طرز پرہمیں صرف لاک ڈاؤن کی طرف نہیں جانا چاہیے بلکہ روزگار بھی بحال ہونا چاہیے، حقیقی طور پر محفوظ طریقے سے جزوی طور پر کاروبار بحال ہونا ناگزیر ہے تاہم اگر تاجر کسی ایسی غفلت کے مرتکب پائے جائیں جس سے کورونا کے مرض میں اضافہ ہو تو حکومت کے پاس کاروبار کی مکمل بندش کا جواز پیدا ہوجائیگا۔
موجودہ سورتحال میں متوسط اور نچلے درجہ کے کاروبای طبقہ کیلئے ملازموں کی تنخواہ، یوٹیلیٹی بلزم دکانوں اور گھروں کے کرائے، بچوں کی فیس اداکرنا ناممکن ہوچکا ہے جبکہ کے الیکٹرک کی روایتی ہٹ دھرمی مشکلات میں اضافہ کریگی تاہم بلوں کی عدم ادائیگی سے کے الیکٹرک خود بھی بحران سے دوار ہوسکتی ہے،حکومت کو چاہیے کہ ان تمام تر معاملت کو دیکھنے کے بعد عوام کیلئے بلوں کی ادائیگی آسان بنائے اور جن لوگوں کیلئے ان کی ادائیگی ممکن نہیں انہیں بلوں کیلئے رقم قرض کے طور پر فراہم کرے ۔حکومت کے پاس اس وقت مالیاتی گنجائش نہیں ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی امدادی رقم سے غریب اور متوسط طبقے کی مدد کی جائے۔
کنسٹریشن سیکٹر کیلئے پیکیج خوش آئند ہے، جس سے کوئی بھی سیکٹر فیضیاب ہو اور جس میں لاکھوں محنت کشوں کو روزگار کا موقع ملے وہ لائق تحسین ہے لیکن ملک میں اور بھی شعبے ہیں جن کو پیکیجز کی ضرورت ہے ، حکومت کاروبار طبقے کیلئے مراعات کا اعلان کرے اور سود سے پاک روزگار کے مواقع معیشت کی بحالی میں معاون ومددگار ثابت ہونگے۔
عتیق میر