کورونا وائرس نے دنیا میں 10 لاکھ لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا بھر میں کورونا وائرس وبائی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اب اسے دنیا کا بدترین بحران سمجھا جارہاہے۔ تصدیق شدہ انفیکشن کی تعداد اب دس لاکھ کے سنگین سنگ میل تک پہنچ چکی ہے، جبکہ صرف یورپ میں 30,000 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

تقریبا ًآدھی دنیا لاک ڈاؤن کی زدمیں ہے اور پابندیوں کے نرغے میں ہے، یہ سب وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے، کورونا وائرس خوراک کی قلت اور بے روزگاری سبب بن رہا ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر بھارت نے ایک ارب لوگوں پر لاک ڈاؤن مسلط کرنے کا اچانک فیصلہ کیا ہے۔

عالمی سطح پر اموات کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے اور46,000 سے زیادہ افراد کی موت کی اطلاعات ہیں۔ جن میں امریکہ کا ایک چھ ہفتوں کا بچہ بھی شامل ہے، جو اس بیماری کا سب سے کم عمر شکار سمجھا جارہا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس وائرس کا بد ترین شکار ہوچکا ہے کیونکہ یہ وبائی مرض کا نیا مرکز بن گیا ہے اور اب عالمی سطح پر انفیکشن کی اطلاع کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ امریکا سے ہے۔

تین چوتھائی سے زیادہ امریکی لاک ڈاؤن میں ہیں اور وہ کئی مہینوں تک اپنے گھر وں میں رہ سکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ، جو ایسٹر کے ذریعہ ملک کو دوبارہ کھولنے کی امید کر رہے تھے، اب پیچھے ہٹ گئے ہیں کیونکہ امریکہ دنیا کی بدترین متاثرہ قوم بن گیا ہے۔

نیو یارک بدترین متاثرہ لوگوں میں شامل ہے اور عالمی شہر میں ہزاروں عارضی اسپتال قائم کردیئے گئے ہیں۔

بہت ساری ریاستوں نے سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے،جبکہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

کورونا وائرس اب نوجوانوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو متاثر کررہا ہے، اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مقامی حالات کے مطابق ڈھل سکتا ہے اور جینیاتی تغیر پیدا کرسکتا ہے۔

چین میں جہاں وائرس کا آغاز ہوا، اس کی صورتحال بتدریج بہتر ہوگئی ہے لیکن سامنے آنے والے اعداد و شمار نے تنازعہ پیدا کردیا ہے۔

ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ چینی حکومت نے اچھے امیج کو پیش کرنے کے لئے کیسزکی تعداد کو کم کیا ہے۔

چین میں انفیکشن کی دوسری لہر کا خدشہ موجود ہے، جس کا اس حکمت عملی سے خطرہ ظاہر ہوتا ہے جس میں اس مرض پر قابو پانے کے لئے سخت لاک ڈاؤن بھی شامل ہے۔

حکومتوں کے بڑے پیمانے پر محرک پیکجوں کا اعلان کرتے ہی عالمی اسٹاک مارکیٹیں بدترین مندی کا شکارہوچکی ہیں۔

ٹوکیو اولمپکس کے اگلے سال تک تاخیر کے بعد کھیلوں میں خلل پڑ رہا ہے۔ یہ معاملہ پوری دنیا کے ساتھ وابستہ ہے جو وبائی امراض سے دوچار ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ صورت حال کب تک ٹھیک ہو پائے گی۔ لگتا یہ ہے کہ ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے، اور تب تک ہم تکلیف میں مبتلا رہیں گے۔
 

Related Posts