پاکستان کے تاریخی پس منظر میں جمہوریت اور آمریت کا تقابلی جائزہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان دُنیا کے اُن ممالک میں سے ایک اہم ملک ہے جہاں جمہوریت کے ساتھ ساتھ آمریت کے نظامِ حکومت کو بھی عوام پر حکمرانی کے خاطر خواہ مواقع نصیب ہوئے۔

اگر ہم پاکستانی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہم پر عیاں ہوتا ہے کہ سن 1969ء میں آج ہی کے روز میں یحییٰ خان نے پاکستان پر دوسری بار مارشل لاء نافذ کردیا جسے آج تک جمہوری حلقے شدید تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔

جنرل یحییٰ خان کے نافذ کیے ہوئے مارشل لاء کو آج 51 سال مکمل ہو گئے، اس موقعے پر ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا جمہوری نظام ہی عوام کے تمام مسائل کا حل پیش کرسکتا ہے؟ مارشل لاء اور کرفیو کو ایک ہی سکے کے دو رُخ سمجھا جاسکتا ہے، تاہم آمریت اس سے الگ چیز ہے۔

آمریت ایک مکمل نظامِ حکمرانی کا نام ہےجیسا کہ جمہوریت یا دیگر نظام ہائے حکمرانی ہوسکتے ہیں۔ آج ہمیں جمہوریت کے مثبت و منفی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے آمریت کے نظام کا بھی جائزہ لینا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

آمریت کا نظام

سب سے پہلے ہم آمریت کی بات اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ دستیاب تاریخ کے مطابق سب سے پہلے جو نظام نوعِ انسانی پر نافذ کیا گیا، وہ آمریت ہی تھا۔جدید تاریخ میں مغلیہ دور سے لے کر انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی تک برصغیر میں بھی آمریت کا نظام کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا۔

آمریت سے مراد ایک یا ایک سے زیادہ اشخاص پر مشتمل کسی گروہ کا وہ نظامِ حکمرانی ہے جس میں عوام کی رائے کی اہمیت صفر ہوتی ہے۔ عوام اپنی مرضی سے کچھ کرنے کے لائق نہیں ہوتے، بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

اکثر صورتوں میں حقِ حکمرانی صرف بادشاہ سلامت کے پاس ہوتا ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں کرسکتے ہیں۔ اگر عوام کوئی جائز کام بھی بادشاہ سلامت کی مرضی کے بغیر کریں تو وہ اس طرح کی حکم عدولی پر ان کا سر قلم کرنے کا حکم صادر کرسکتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نظامِ آمریت میں صرف ایک شخص، قبیلے یا خاندان کی مرضی چلتی ہے۔ اگر وہ رحمدل ہوں تو رعایا کے لیے زندگی جنت بن جاتی ہے اور اگر سنگدل ثابت ہوں تو ان کی زندگی جہنم قرار پاتی ہے۔

آمریت کی مثالیں

چنگیز خان، ہلاکو خان، امیر تیمور، ظہیر الدین بابر اور ایسٹ انڈیا کمپنی تک کی مثالیں تو تاریخ کے اوراق میں آمریت کے نظام کی تفصیلات بتانے کے لیے بکھری پڑی ہیں، تاہم موجودہ دور میں اگر ہمیں آمریت کی مثال دیکھنی ہو تو ہم کہاں کا رُخ کرسکتے ہیں؟

جو لوگ یہ بات نہیں جانتے، انہیں یہ جان کر حیرت کا جھٹکا ضرور لگے گا کہ شمالی کوریا ایک ایسا ملک ہے جہاں آج بھی بادشاہ سلامت کی مرضی چلتی ہے۔ نظامِ آمریت وہاں ایک ایسی شکل میں نافذ ہے جسے جان کر پاکستان میں جمہوری نظام کے عملی نفاذ پر آوازے کسنے والے مملکتِ خداداد کو جنت قرار دینے لگ جائیں گے۔

شمالی کوریا میں آج بھی بادشاہ سلامت یعنی صدرِ مملکت کم جانگ اُن کی مرضی چلتی ہے۔اطلاعات و نشریات کے ادارے کا کوئی تصور نہیں۔ آپ ٹی وی چینل نہیں دیکھ سکتے۔ ریڈیو نہیں سن سکتے۔ اگر دیکھ سکتے ہیں یا سن سکتے ہیں تو صرف سرکاری چینل۔

یہی نہیں، بلکہ شمالی کوریا میں اگر آپ کو بال کٹوانے ہیں تو صدرِ مملکت کے منظور شدہ اسٹائلز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کھانا کھانا ہے تو بھی سرکار کی مرضی چلتی ہے۔ ملازمت کرنی ہے تو صرف وہیں کرسکتے ہیں جہاں صدر نے اجازت دی ہو۔

سالہا سال سے شمالی کوریا میں کم جانگ ان کا خاندان حکمران چلا آ رہا ہے۔ اطلاعات و نشریات کے معاملے میں موجودہ صدر نے عوام کو اس قدر اندھیرے میں رکھا ہوا ہے کہ موجودہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

نظامِ جمہوریت

جب نظامِ جمہوریت کو رائج کرنے کی بات کی گئی تواس کی ایسی تعریف بیان کی گئی کہ عوام کو اس میں اپنے خوابوں کی جنت نظر آنے لگی۔ وہ تعریف یہ تھی کہ : جمہوریت سے مراد ایک ایسی حکومت ہے جو عوام پر عوام ہی کرتے ہیں، عوام کی مرضی سے ہی ہوتی ہے اور عوام کی خدمت کے لیے ہوتی ہے۔

نظامِ حکمرانی کی اِس تعریف سے جو غلط فہمی پیدا ہوئی ، اُس کا آج تک کوئی تدارک نہیں کیا جاسکا۔ اس سے نظام کی خامیاں اس حد تک چھپ گئیں کہ وہ آج تک کسی کو نظر نہیں آتیں اور ہر شخص جمہوریت کے نعرے لگاتا نظر آتا ہے۔

بے شک جمہوریت کم از کم آمریت کے مقابلے میں ایک بہتر طرزِ حکمرانی ہے،تاہم اس میں بھی کسی نہ کسی سطح پر خامیاں ضرور موجود ہیں جن کو دور کرنے کی ہر دور میں ضرورت پڑتی رہی ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے بہت حد تک ان خامیوں پر قابو بھی پایا ہے۔

جمہوریت کی مثالیں اور خامیاں

پاکستان سمیت دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک پر جمہوریت کا نظام رائج ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ مختلف سیاسی نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں جو ان پر حکمرانی کرتے ہیں۔ سیاسی نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ ملک میں حکمرانوں، مقننہ، عدلیہ اور عسکری اداروں سمیت 4 ریاستی ستون موجود ہوتے ہیں۔

اگر ہم اس نظام کی خامیوں کی بات کریں تو جمہوریت میں احتساب کا نظام جب تک مؤثر نہ بنایا جائے، حکمران آمر یت کے دور کی یاد تازہ کراتے رہتے ہیں۔ عدلیہ کا نظام درست کام نہ کرے تو عوام کو انصاف نہیں ملتا اور اگر عسکری ادارے حقِ حکمرانی پر غالب آنا چاہیں تو مارشل لاء بھی پورے نظام کو کچلتا ہوا منظرِ عام پر آجاتا ہے۔

ہمارا  ہمسایہ ملک بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کا دعویدار ہے، لیکن وہاں جمہوریت کے باوجود نریندر مودی نے کیا کیا؟ یہ ہمارے سامنے ہے۔ کشمیر پر تاریخِ انسانی کا بد ترین کرفیو، متنازعہ شہریت کا قانون، مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی مسلم کش فسادات اور آج تک جاری و ساری قتل و غارت نریندر مودی کے آمریت پسند ذہن کی عکاسی ہے۔

کون سا نظام بہتر ہے؟

نظامِ جمہوریت بے شک آمریت کے مقابلے میں بہتر ہے لیکن اس کی خامیوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے سن 1973ء کے آئین میں جو اصلاحی دفعات شامل کیں، وہ اسی نظام کی بہتری کی طر ف ایک قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

نظام ہائے حکمرانی اور بھی ہیں ، تاہم فی الحال ہم جمہوریت اور آمریت میں سے کسی ایک نظام کو چننے کی بات کر رہے ہیں۔ بلا شبہ جمہوریت کے نظام میں خامیاں موجود ہیں جنہیں دور کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ آمریت کو پسند کریں تو بد قسمتی سے اس کی خامیاں دور کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صرف بادشاہ سلامت کو ہوگا، عوام کو نہیں۔

جمہوریت میں رہتے ہوئے نظام کو ملک کے اعتبار سے مناسب بنایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی اور پاکستان دونوں میں جمہوریت نافذ ہے لیکن وہاں جو اختیارات صدر کو حاصل ہیں، یہاں وزیرِ اعظم ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک جمہوری نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان کے ماہرینِ قانون کو بھی ملک میں جمہوری نظام اور قانون کی بالادستی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس نظام کی خوبیوں کو مزید بہتر اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے اصلاحات پر کام کرنا ہوگا۔ تبھی ہم ایک بہتر پاکستان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں گے۔

Related Posts