اپنے حق کے لیے کیسے لڑا جائے۔ کچھ مبنی بر حق طریقے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اپنے حق کے لیے کیسے لڑا جائے۔ کچھ مبنی بر حق طریقے
اپنے حق کے لیے کیسے لڑا جائے۔ کچھ مبنی بر حق طریقے

خواتین کے عورت مارچ کے حوالے سے گرما گرم بحث و تمحیص اِس وقت سوشل میڈیا پر ایک جنگ کی صورت میں چھڑی ہوئی ہے جس کا کوئی سرا نظر نہیں آتا، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

عورت مارچ پر بحث اُس وقت زور پکڑ گئی جب خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کی نازیبا گفتگو سامنے آئی، تاہم جب اس تمام تر صورتحال کا تجزیہ کیا گیا تو ہمیں علم ہوا کہ عوام بالخصوص خواتین یہ نہیں جانتیں کہ اپنے حق کے لیے کیسے لڑنا چاہئے۔

Image result for Aurat March

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اگر آپ کو بنیادی انسانی حقوق سمیت اپنا کوئی بھی حق نہ ملے تو اس کے حصول کے لیے جنگ کیسے کرنی ہے، اس کے کچھ ایسے طریقے ہیں جن پر کوئی بھی مستقل مزاجی سے عمل کرکے اپنا حق حاصل کرسکتا ہے۔

حق کی پہچان ضروری ہے

سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ کو اپنے حقوق کا علم ہو۔ بنیادی انسانی حقوق میں آزادئ اظہارِ رائے سے لے کر جان و مال کی حفاظت تک کے حقوق شامل ہیں جن کا اقوامِ متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق ہم سے وعدہ کرتا ہے۔

Image result for United Nations

سوال یہ ہے کہ حق کی پہچان کیسے کی جائے؟ جب انسان کا کوئی حق اسے نہیں ملتا تو ذہن پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے احساسِ محرومی کہتے ہیں۔ اگر آپ کے دل میں بھی ایسا کوئی احساس ہے تو یقیناً آپ بھی اپنے کسی نہ کسی حق سے ضرور محروم ہوں گے جسے حاصل کرنا ضروری ہے۔

احساسِ محرومی کے علاوہ حق کی پہچان کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ آپ کے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں ہو رہا؟ اگر آپ کے ساتھ مارپیٹ کی جاتی ہو، بولنے نہ دیاجاتا ہو یا عزت نہ دی جاتی ہو تو بالترتیب حقِ تحفظ، حقِ اظہارِ رائے اور حقِ عزتِ نفس کو پامال کیا جا رہا ہے۔

حقوق کی فہرست بے حد لمبی ہے، اس لیے ان کی پہچان کے طریقے بھی الگ الگ ہیں۔ سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ جہاں ظلم و ستم کیا جائے اور طاقت کا ناجائز استعمال ہو، وہاں حقوق کی پامالی لازم و ملزوم ہوجاتی ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی منشور

اقوامِ متحدہ کے ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس یا حقوق کے عالمی منشور کو بین الاقوامی سطح پر ایک معیار مانا جاتا ہے جس کی بنیاد پر ہم اپنے متعدد حقوق کو پہچان کر ان کے حصول کے لیے آواز بلند کرسکتے ہیں۔

Image result for human rights

دوسری جنگِ عظیم (1939ء سے 1945ء) کے دوران کروڑوں انسان لقمۂ اجل بن گئے جس کے بعد انسانیت کے علمبردار ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھے اور انسانی حقوق کے تحفظ پر کام شروع کیا گیا۔

قیامِ پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد یعنی 10 دسمبر 1948ء کو پیرس کے مقام پر اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی جس کے آج تک دنیا بھر کی درجنوں زبانوں میں تراجم شائع کیے گئے۔

اس قرارداد کو انسانی حقوق کا عالمی منشور کہتے ہیں جس میں معاشی و سماجی حقوق، اقتصادی و معاشرتی حقوق، ثقافتی حقوق، آزادئ اظہارِ رائے اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ 

حقوق کی حفاظت  کے لیے پہلا قدم 

ایک بار آپ کو پتہ چل جائے کہ آپ  کے کون سے حقوق متاثر ہو رہے ہیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے تو ان حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری نہیں ہے  کہ جنگ کی جائے بلکہ اس کے دیگر متعدد طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔

Image result for Discussion

حق کی حفاظت کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ حقوق کو متاثر کرنے والے فرد یا افراد سے رابطہ کیا جائے۔ ان سے بات چیت کی جائے۔ انہیں سمجھایا جائے کہ ان کے کس کس عمل سے آپ کے کون کون سے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں

خواتین کے حقوق کیا ہیں، یہ آج کل بچہ بچہ جانتا ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں، اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی لاتعداد خواتین آج بھی متعدد انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

عورت مارچ کے نام پر بعض افراد نے جس طرح فحش بینرز اٹھا لیے، اسے کسی بھی طرح تہذیب سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس سے خواتین کے اصل حقوق کی بات دب کر رہ گئی، تاہم یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔

Image result for khalil ur rehman qamar with marvi

معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد کے درمیان نازیبا گفتگو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں دونوں جانب کوتاہی نظر آئی۔ تہذیب کا دامن خواتین کی علمبردار ماروی سرمد اور خلیل الرحمان دونوں نے چھوڑ دیا۔

یہاں ہماری رائے صرف اتنی ہے کہ افہام و تفہیم کے لیے جس سے آپ کو اپنا حق لینا ہو یا جسے یہ سمجھانا ہو کہ حق لینا کیوں ضروری ہے، اس کی رائے کو بھی اہمیت دیجئے۔تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ 

جنگ جہاں ضروری ہو، کی جائے 

حقوق کی حفاظت کیے بغیر زندہ رہنے کا مطلب ایک بے مقصد زندگی گزارنا ہے اور دنیا کے بیشتر انسان اس سے موت کو بہتر قرار دیتے ہیں، اس لیے حقوق کی حفاظت کے لیے لڑائی اگر ضروری ہو تو اسلام جیسے امن پسند مذہب نے  بھی آپ کو وہ کرنے کا حق دیا ہے۔

Image result for Friendly Fight

امن پسندی کی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد اسے بزدلی کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کو اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے تو بزدلی سے بچئے۔ امن پسندی اچھی چیز ہے، لیکن ایک حدِ اعتدال سے زیادہ نہیں۔اپنے حقوق کے لیے ہر جائز طریقے سے جدوجہد کیجئے۔ حقوق آپ کو مل کر رہیں گے۔ 

حقوق کی حفاظت کا آخری اصول

اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے آخری اصول یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق کا احترام کریں۔ اگر آپ آج طاقتور ہیں اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا اپنا حق سمجھ رہے ہیں تو یہ روِش چھوڑ دیجئے کیونکہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔

Image result for Islamic Graveyard

تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے فرعون منوں مٹی تلے جا سوئے اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے والوں کا آج یا تو کوئی نام ہی نہیں، یا پھر انہیں انتہائی ذلت آمیز انداز میں یاد کیاجاتا ہے۔ یوں موت کے بعد عدل قائم کیاجاتا ہے۔

Related Posts