پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کو حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خواتین کا دن منایا جاتا ہے، اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، مختلف سیمینارز اور پروگرامز میں خواتین کے مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ خواتین کو حقوق کی فراہمی کیلئے تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں پاکستان کی خواتین بھی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔
عورت ماں،بہن،بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا انمول تحفہ ہے اورآبادی کا نصف حصہ ہونے کے باوجودپاکستان میں آج بھی خواتین کیلئے حالات انتہائی ابتر ہیں،غربت، افلاس، تنگدستی، گھریلو حالات، محرومی، اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور مجبور عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر صنفی امتیاز کے ساتھ ساتھ جنسی ہراسانی جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک خواتین کے حقوق کا تحفظ کا سوال ہے تو پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے عورت مارچ کرنیوالے چند مخصوص گروہوں نے خواتین کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے معاملات کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے، گزشتہ برسوں میں فیمینزم کے نام پرعورت مارچ میں جن باتوں کو موضوع بحث بنایا گیا وہ شائد خواتین کے حقیقی مسائل ہی نہیں ہیں۔
کھانا گرم کرنا،موزہ تلاش کرنا، بچے پیدا کرنا، ٹھیک سے بیٹھنا، میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں نے کسی اور کو نہیں خود خواتین کو نقصان پہنچایا ہے، خواتین کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے والے بھی عورت مارچ میں اٹھائے جانیوالے سوالات کی وجہ سے تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
فیمینزم کوئی بیماری ہے نہ حقوق نسواں کامطالبہ معیوب ہےتاہم چند مردوں سے بیزارمخصوص طبقے نے خواتین کی آزادی کو جسم کی نمائش، بغیر نکاح تعلق، ہم جنس پرستی ، مادر پدر آزادی کو حقوق نسواں کا نام دیدیا ہے جبکہ صنفی امتیاز،کارو کاری، وٹہ سٹہ،جہیز، جنسی زیادتی ،آوازیں کسنا، مذاق اڑانا، تیزاب پھینکنا، ہراساں کرنا،مرضی کے بغیر شادی، یکساں تعلیم، جائیداد میں حصہ نہ دینا، طلاق یافتہ سے امتیازی سلوک، گھریلو تشدد اوردوسری شادی جیسے مسائل عورت مارچ اور فیمینزم کے پیچھے چھپ گئے ہیں۔
شہنشاہ فرانس نپولین نے کہا تھا’’تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا‘‘ ،مردوں سے بیزار خواتین اپنے بیشتر مسائل کی ذمہ دار خود ہی ہیں۔ ماں ایک بچے کی زندگی بنانے اور بگاڑنے میں اثرانداز ہوتی ہے۔
ماں کو جگائیں تو عورت کو تمام حقوق خود بخود مل جائیں گے۔ آپ اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ کسی بیٹی کو محض کھلونا سمجھنے کی بجائے اس کا احترام کرے اور اس کو تمام جائز حقوق دے کیونکہ اگر مرد گناہ گار ہے تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں عورت بھی کسی نہ کسی صورت ذمہ دار ضرور ہے۔