عاصمہ جہانگیر: جمہوریت پسند قانون دان اور انسانی حقوق کی زبردست علمبردار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عاصمہ جہانگیر: جمہوریت پسند قانون دان اور انسانی حقوق کی بلند پایہ علمبردار
عاصمہ جہانگیر: جمہوریت پسند قانون دان اور انسانی حقوق کی بلند پایہ علمبردار

ملکی تاریخ کی نابغۂ روزگار شخصیت، جمہوریت پسند قانون دان اور انسانی حقوق کی بلند پایہ  اور زبردست علمبردار عاصمہ جہانگیر کو ہم سے بچھڑے ہوئے 2 سال گزر گئے ہیں لیکن قوم آج بھی انہیں یاد کر رہی ہے۔

ایک طرف عاصمہ جہانگیر کے ہم نوا انہیں ملکی تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں شمار کرنے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کے مخالفین انہیں مختلف معاملات پر موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

آج عاصمہ جہانگیر کی دوسری برسی کے موقعے پر ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ان کی سیاسی و سماجی خدمات کیا ہیں اور انہیں کن نکات کی بنیاد پر ایک متنازعہ شخصیت ٹھہرایا جاتا ہے۔

ابتدائی تعلیم سے وکالت تک 

جمہوریت پسند قانون دان عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں اور اپنی ابتدائی و اعلیٰ ثانوی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔

کمسن عاصمہ جہانگیر لاہور کے ایک پرائیویٹ اسکول (کانوینٹ آف جیزز اینڈ میری) سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، کینیئرڈ کالج برائے خواتین یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔

سن 1978ء تک عاصمہ جہانگیر ایل ایل بی مکمل کرکے وکیل بن چکی تھیں۔ 1980ء میں انہیں لاہور ہائی کورٹ اور بعد ازاں 1982ء میں سپریم کورٹ بلایا گیا۔

والد کو چھڑانے سے آئین تک 

سن 1973ء کو پاکستان کی تاریخ کا اہم سال سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہی وہ سال ہے جب ہمیں متفقہ آئین عطا ہوا جس میں عاصمہ جہانگیر کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

یقیناً 1973ء کا آئین ایک بڑی دستاویز ہے جس کی تیاری میں متعدد ملکی و سیاسی شخصیات کا کردار ناقابلِ فراموش رہا، تاہم عاصمہ جہانگیر اس آئین کی تشکیل کا اہم سبب قرار پائیں۔

Image result for Yahya Khan

مذکورہ سال کے دوران عاصمہ جہانگیر کی عمر 21 سال تھی اور فوجی آمر یحییٰ خان پاکستان کے حکمران تھے۔ انہوں نے عاصمہ جہانگیر کے والد کو قید میں ڈال دیا جس کے بعد عاصمہ جہانگیر کی  عملی جدوجہد شروع ہوئی۔

عاصمہ جہانگیر نے وقت کے بڑے بڑے وکلاء سے کہا کہ  میرے والد کا کیس لڑو، لیکن کوئی تیار نہ ہوا۔ یحییٰ خان سے خوفزدہ وکلاء نے کیس لینے سے انکار کیا اور عاصمہ جہانگیر کو یہ کیس خود لڑنا پڑا۔

واضح رہے کہ عاصمہ جہانگیر ابھی وکیل نہیں بن سکی تھیں، تاہم آئینِ پاکستان کے تحت عدالت نے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے والد کا مقدمہ خود لڑ سکتی ہیں جس پر انہوں نے یہ مقدمہ لڑا اور اپنے والد کو بری کروا لیا۔ 

ایک بہادر بیٹی کی حیثیت سے  نہ صرف عاصمہ جہانگیر نے والد کو بری کروایا بلکہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں اہم کارنامہ انجام دیتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ یعنی آمریت کو غیر آئینی قرار دلوایا۔

یہ اتنا بڑا فیصلہ تھا کہ وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور موجودہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سول مارشل لاء ختم کرکے آئین کی تشکیل کا حکم دینا پڑا۔ ملک کا آئین اسی سال یعنی 1973ء میں ہی مکمل ہوا۔

اس کیس کو عاصمہ جہانگیر کیس کہا جاتا ہے جو جمہوریت پسند قانون دان عاصمہ جہانگیر نے وکیل بننے سے قبل لڑا جس کے باعث وہ ملکی سطح میں ایک اہم شخصیت  کے طور پر مشہور ہوئیں۔

خدمات، اعزازات اور قیدو بند

قانون دان کی حیثیت سے عاصمہ جہانگیر نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور متعدد مقدمات لڑے۔ انہوں نے بے شمار مظلوموں کو انصاف دلوایا اور سماجی رہنمائی کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔

عاصمہ جہانگیر کو  2010ء میں وفات سے 8 سال قبل ہلالِ امتیاز جیسے اعزاز سے نوازا گیا اور متعدد بین الاقوامی ایوارڈ بھی ان کے نام رہے۔

Image result for Asma Jahangir in Supreme Court Bar

خاتون قانون دان عاصم جہانگیر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اراکین میں شامل ہیں۔ انہوں نے ویمن ایکشن فورم بھی تشکیل دیا جس کے تحت  صنفی امتیاز پر مبنی قانون سازی کے خلاف جدوجہد جاری رہی۔

زندگی کے آخری سال کے دوران یعنی سن 2018ء میں اکتوبر کے دوران اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہیومن رائٹس پرائز کے فاتحین کا اعلان کیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر نے فاتحین میں شامل ہو کر پاکستان کا نام روشن کیا۔ 

سن 80ء کی دہائی کے دوران عاصمہ جہانگیر ایک جمہوریت پسند رہنما کے طور پر منظر عام پر آئیں اور وقت کے طالع آزما حکمران ضیاء الحق نے انہیں 1983ء میں جیل میں بند کردیا۔

عاصمہ جہانگیر کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلائی جس کا نام بحالئ جمہوریت تحریک تھا جو فوجی حکمران ضیاء الحق کے خلاف تھی۔ بعد ازاں 1986ء میں وہ جنیوا چلی گئیں۔

جنیوا میں عاصمہ جہانگیر نے ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل یعنی بین الاقوامی ادارہ برائے دفاعِ اطعال کی رکنیت اختیار کی جہاں انہیں ادارے کا نائب سربراہ بنا دیا گیا۔ سن 1988ء تک وہ اس عہدے پر فرائض انجام دیتی رہیں۔

سپریم کورٹ بار  کونسل میں پہلی بار جس خاتون کو صدارت کا اعزاز حاصل ہوا وہ عاصمہ جہانگیر تھیں۔ اس کے علاوہ عاصم جہانگیر نے 1993ء میں ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن کا عہدہ بھی سنبھالا۔

Image result for Pervaiz Musharaf

وقت کے حکمران پرویز مشرف نے نومبر 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کو  گھر میں نظر بند کردیا۔ بعد ازاں عاصمہ جہانگیر وکلاء تحریک کے اہم ترین رہنماؤں میں شامل ہو گئیں۔

عاصمہ جہانگیر  جنوبی ایشیائی فورم برائے انسانی حقوق کی شریک چیئرمین  رہیں جبکہ انہوں نے بین الاقوامی فیڈریشن برائے ہیومن رائٹس کی نائب صدر کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔

Image result for Aasma Jahangir

سن 2014ء میں عاصمہ جہانگیر کو رائٹ لائیولی ہوڈ ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ساتھ ایڈورڈ اسناؤڈن ایوارڈ بھی شامل ہے۔ یہ اعزازات پاکستان میں انسانی حقوق اور مشکل حالات میں پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنے پر دئیے گئے۔

تنازعات 

عاصمہ جہانگیر پر تنقید سے قبل ان کی ذاتی زندگی کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔ انہیں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ فوجی حکمرانوں کے ہمیشہ خلاف رہیں اور جمہوریت اور انسانی حقوق کا پرچم تھامے نظر آئیں۔

دراصل عاصمہ جہانگیر نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا اس وقت کے حکمران یحییٰ خان  سے لے کر 2007ء تک سابق صدر پرویز مشرف تک سب لوگ فوج سے تعلق رکھتے تھے جس پر انہوں نے شدید تنقید کی۔

پاک فوج اور ملکی اداروں پر انگلی اٹھانے والا کوئی بھی شخص عوام کی تنقید سے بچ نہیں سکتا اور یہی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ بھی ہوا۔ مرحوم  سماجی رہنما عاصمہ جہانگیر کی دوسری برسی کے موقعے پر ہمیں یہ تنازعات نظر انداز کرنے چاہئیں۔ 

تصنیف و تالیف 

عاصمہ جہانگیر نے 2 کتابیں بھی تحریر کی ہیں جن میں حدود آرڈیننس اور چلڈرن آف اے لیسر گاڈ شامل ہیں۔دونوں  کتابوں کے موضوعات میں قانون اور انسانی حقوق کے عوامل پر بحث کی گئی ہے۔

وفات

نڈر قانون دان عاصمہ جہانگیر کی وفات ہارٹ اٹیک یعنی دل کے دورے کے باعث ہوئی۔ 11 فروری 2018ء کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث عاصمہ جہانگیر نامی یہ باہمت خاتون  لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔ 

Related Posts