ڈیل آف سنچری : دوریاستی حل یا تباہی کا منصوبہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

deal of the century
Trump releases long-awaited Middle-East peace plan

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کیساتھ مشاورت کے بغیر اسرائیلی وزیرِ اعظم سے دو سالہ مذاکرات کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین کے حوالے سے اپنا منصوبہ پیش کردیا ہے جسے ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

امریکا کے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی بینجمن نتن یاہوکے ہمراہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا جس کوفلسطینی پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے مفاد میں پیش کیا جائے گا۔

منصوبے کے مندرجات اور اصل حقائق
ڈیل آف سنچری کے حوالے سے اب تک سامنے آنیوالی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے مغربی کنارے اور غزہ میں نئے فلسطین کے نام سے ایک ریاست تشکیل دی جائے گی۔ایک سال بعد اس ریاست میں انتخابات ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں کو تین سال کے عرصے میں مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔یروشلم تقسیم نہیں ہوگا ،اسرائیل اور نئی فلسطینی ریاست دونوں ذمہ داریاں تقسیم کریں گی،یروشلم میں رہنے والے فلسطینی نئی فلسطینی ریاست کے شہری تصورہوں گے۔

اسرائیلی میونسپلٹی زمین کے حوالے سے معاملات دیکھے گی، نئی فلسطینی ریاست اسرائیل کی میونسپلٹی کو ٹیکس دے گی جس کے بدلے میں وہ یروشلم کے شہریوں کی تعلیم کی ذمہ دار ہوگی۔

اس وقت یروشلم میں چار لاکھ سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ اسرائیل شہر سے دور رہنے کی صورت میں ان فلسطینیوں کی شہریت کو معطل کرسکے گا۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی تعمیرات جو کہ عالمی قوانین کے رو سے غیر قانونی تصور کی جاتی ہیںان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا۔

مصر نئی فلسطینی ریاست کے لیے غزہ کے قریب کچھ علاقہ دیاگا جس پر ائیر پورٹکے علاوہ فیکٹریاں اور زرعی سیکٹر قائم کیا جاسکے گا۔ فلسطینیوں کو اس علاقے میں قیام کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس پر عمل درآمد ڈیل کے پانچ سال کے عرصے میں ہوگا۔معاہدے میں فلسطینی عوام کی زندگی میں بہتری کی تجاویز شامل ہیں لیکن محفوظ فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ
فلسطین ایک عرب اکثریتی سرزمین ہے اور یہاں 1948ء سے نسل پرست یہودیوں نے ایک جعلی ریاست اسرائیل قائم کر رکھی ہے۔یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے جس کے لئے مختلف ممالک نے سفارتکار یا بین الاقوامی ماہرین کو مقرر کر رکھا ہے۔

غربِ اردن اور مشرقی یروشلم جیسے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کا قیام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعات کی اہم وجہ ہے۔مغربی کنارے اس وقت 132 بستیاں اور 113 آؤٹ پوسٹ قائم ہیں جو بغیر اجازت کے بنائی گئیں۔

مشرقی یروشلم میں 13 بستیاں ہیں،گولان کے پہاڑی علاقے میں درجنوں بستیاں قائم ہیں جبکہ اسرائیل نے جزیرہ نما سینا اورغزہ کی پٹی میں بھی بستیاں بنائی تھیں تاہم اب انھیں ہٹا دیا گیا ہے، یہ علاقے اسرائیل نے 1967 میں مصر سے چھینے تھے۔ان بستیوں کا مستقبل اسرائیل اورفلسطین کے درمیان تنازع کا ایک اہم جزہے جس کی وجہ سے دونوں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات متعدد بار ناکام ہو چکے ہیں۔

امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم کا موقف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ یروشلم اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا ، ان کا کہنا ہے کہ امن منصوبہ دونوں فریقین کیلئے مفید ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے لیے ایک مضبوط راہ دکھاتا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کا خطاب دیتے ہوئے ڈیل آف سنچری کوتاریخ سازموقع قرار دیا ہے جس کے تحت اسرائیلی سرحدوں کا حتمی تعین کیا جاسکے گا۔ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اسرائیل کو یہودی مملکت کے طور پر تسلیم کریں۔

فلسطینی وزیراعظم اور حماس کاردعمل
فلسطینی وزیرِ اعظم نے ڈیل آف سنچری کوفلسطینی مزاحمت اور مقصد کے خاتمے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے، وزیرِ اعظم محمد اشتیہ کاکہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔

اسرائیل کے ظلم وبربریت کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والی اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے رہنما خالد مشعل کاکہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل ڈیل آف دی سنچری منصوبے کو قبول کرنے کے لیے عرب ممالک پر دبائو ڈال رہے ہیں،ان کا کہنا ہے فلسطینی قوم اورقیادت ڈیل آف دی سنچری کےخلاف متحد ہے ،فلسطینی قوم اس سازش کو کبھی بھی قبول نہیں کی گئی۔

ڈیل آف سنچری کے مخفی عزائم
فلسطین کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی نیت سے امریکا صدی کاسب سے بڑا سودا طے کررہا ہے۔دسمبر 2016 میں اقوام متحدہ کی قرارداد میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی اوربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قراردیاجا چکا ہے۔

مجوزہ ڈیل آف سنچری میں  غزہ اور مغربی کنارے کو آپس میں جوڑنے کے لیے اسرائیلی زمین سے 30میٹر بلند ہائی وے تعمیر کی جائے گی جس کیلئے چین 50فیصد رقم مہیا کرے گا،امریکا ،جنوبی کوریا، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین ہائی وے کے اخراجات کا دس دس فیصد مہیا کریں گے۔

منصوبے کے مضمرات
صدر ٹرمپ نے مشرقی بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خودمختاری تسلیم کر کے امریکاکی کئی دہائیوں پرانی پالیسی بدل دی ہے جس پر فلسطینی انتہائی برہم ہیں ۔فلسطینیوں نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ان بستیوں پر اپنی خودمختاری بڑھا دی تو امن مذاکرات ختم کر دیے جائیں گے۔

اس وقت ڈیل آف سنچری میں امریکا ،چین ،جنوبی کوریا، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین بھی شریک ہیں تو ایسے میں اگر یہ معاملہ اقوام متحدہ میں جاتا بھی ہے تو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملے گی جبکہ اسلامی اتحاد او آئی سی عملی طور پر مکمل طور پر غیر فعال اور بے بس ہے جبکہ اوآئی سی آزادانہ رائے کے بجائے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو خو د امریکا کے اشاروں پر چلتے ہیں ۔اس لیئے مجوزہ ڈیل آف سنچری پر عملدرآمد کیلئے فلسطین کے عوام پر مظالم کے نئے پہاڑ توڑے جائینگے جس کے نتیجے میں مزید تباہی کے آثار پیدا ہونگے۔

Related Posts