کراچی: ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گیس کا بحران بھی شدید تر ہوتا جا رہا ہے،شہریوں کو ایک طرف بھاری بھرکم گیس کے بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں تو دوسری طرف دن اور رات میں گیس کی دستیابی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے شہری سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے کچھ اہلکار کراچی بھر میں درجنوں ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر کاروباری مقامات کو رہائشی گیس کنکشن کے ذریعے کمرشل استعمال کی غیر قانونی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
ان کنکشنز کے بدلے لاکھوں روپے کی رشوت لی جاتی ہے چونکہ رہائشی اور کمرشل نرخوں میں واضح فرق ہے، اس لیے یہ عمل کمپنی کے ریونیو کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ شہریوں پر اضافی بلوں کی شکل میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
یہ وہی ماڈل ہے جو کے الیکٹرک برسوں سے اپنا چکی ہے، جہاں عملہ رشوت لے کر غیر قانونی کنڈے لگاتا ہے اور پھر اس چوری کی قیمت ایماندار صارفین کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اب یہی طریقہ کار گیس کے شعبے میں اپنایا جا چکا ہے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گلی محلوں میں عام صارفین ایل پی جی کے مہنگے سلنڈر خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ غیر قانونی طور پر گیس حاصل کرنے والے ہوٹل باقاعدگی سے کاروبار چلا رہے ہیں۔
ایس ایس جی سی کے بلنگ نظام کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اختر کالونی کے ایک صارف نے شکایت کی کہ اسے گیس کی مسلسل بندش کے باوجود 2 لاکھ 6 ہزار روپے کا بل موصول ہوا۔
جب اس نے کمپنی کی ویب سائٹ سے ڈوپلیکٹ بل حاصل کیا تو اس میں رقم صرف 1 لاکھ 2 ہزار روپے درج تھی۔ اس تضاد نے ایس ایس جی سی کے مالیاتی نظام میں گہرے مسائل کو بے نقاب کر دیا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں بلال کالونی، منظور کالونی، لیاقت آباد، کورنگی اور ملیر سمیت کئی مقامات پر گیس کی فراہمی روزانہ گھنٹوں معطل رہتی ہے۔
گیس ملے نہ ملے بل تو دینا ہوگا! گیس کمپنی نے بھی کراچی کے شہریوں سے بھتہ خوری شروع کردی
شہری شکایت کرتے ہیں کہ نہ صبح چولہا جلتا ہے نہ شام لیکن بل پورے وصول کیے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ جن گھروں میں گیس موجود نہیں، وہاں بھی بلوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے بعد اب ایس ایس جی سی نے بھی “بجلی ماڈل” اپنا لیا ہے، یعنی سہولت محدود، قیمت زیادہ اور رشوت عام۔
شہریوں چیف جسٹس آف پاکستان، نیب، ایف آئی اے، اوگرا اور وزیرپیٹرولیم سے مطالبہ کیا ہے کہ گیس کے شعبے میں شفاف تحقیقات کی جائیں اور ان بدعنوان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے جو شہریوں کے استحصال میں ملوث ہیں۔