دفاعی تجزیئے اور عسکری امور کے حوالے سے بھارتی صحافی اور مصنف پراوین سوہنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ قومی سلامتی، دفاع اور اسٹرٹیجک امور پر گہری بصیرت اور 40 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ فورسمیگزین کے بانی اور مدیر ہیں، جو بھارت میں دفاعی پالیسی اور فوجی امور پر ایک اہم اشاعتی ادارہ ہے۔
پراوین سوہنی نے خود بھی بھارتی فوج میں 13 سال تک کمیشنڈ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں اور بعد ازاں آرٹلری سے وابستہ رہے۔ فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعدانہوں نے صحافت کا آغاز کیا اور دفاعی امور پر لکھنا شروع کیا۔
انہوں نے کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی کتابیں بھارت کی دفاعی حکمت عملی، چین کے ساتھ تعلقات اور مستقبل کی جنگوں میں ٹیکنالوجی کے کردار پر گہری بصیرت فراہم کرتی ہیں۔
صحافتی کیریئر میں وہ ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس اور دے ایشین ایج سمیت کئی اہم اداروں میں کام کیا اور اب فورس میگزین کے بانی مدیر ہیں۔ وہ امریکا اور برطانیہ کے عالمی تحقیقی اداروں کے ساتھ دفاعی حکمت عملی اور جوہری پالیسی پر تحقیقی کام کرچکے ہیں۔
انہیں عسکری امور، مختلف ہتھیاروں بشمول فائٹرز جیٹس کے مطالعے اور تجزیئے کا 40 سال سے زائد کا تجربہ ہے۔ اس وقت انڈین میڈیا اور تجزیہ کاری کے میدان میں جو سرکس کا سمندر لگا ہوا ہے، اس میں پراوین سوہنی، کرن تھاپر اور دیگر چند نام چھوٹے سے نایاب جزیرے کی مانند ہے۔
پراوین سواہنی کا کہنا ہے کہ آپریشن سندور انڈیا کی غلطی نہیں بلکہ بلنڈر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماڈرن وارفیئر میں بری فوج کی اہمیت کم اور فضائی فوج بہت اہم ہوگئی ہے۔
ان کے مطابق فضائیہ اب فرنٹ لائن فورس ہے اور آپریشن سندور نے انڈین فضائیہ کی محدودات کو دشمن (پاکستان) کے سامنے ایکسپوز کیا۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے چار جہاز مار گرائے، جن میں کم از کم ایک فرانسیسی ساختہ رافال بھی شامل ہے۔
کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے پاکستان کے پاس موجود چائنیز ساختہ جے 10 لڑاکا طیاروں اور پی ایل 15 میزائلوں کے مہلک کمبینشن پر بھی ماہرانہ گفتگو کی ہے، جس نے ان کے مطابق رفال طیارہ مار گرایا۔
خیال رہے انڈین حکومت نے پراوین سواہنی کی آپریشن سندور کے جائزے پر مشتمل 11 منٹ کی ویڈیو انڈین سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر بین کر دیا ہے جس میں انہوں نے پاکستانی فضائیہ کی جانب سے چار انڈین طیاروں کو گرانے کی تصدیق کی تھی۔
ان کا حالیہ انٹرویو بہت تفصیلی ہے۔ 32 منٹ پر مشتمل یہ انٹرویو آج ہی یوٹیوب چینل (The Wire) پر نشر ہوا ہے اور چند گھنٹوں میں ویوورز کی تعداد 225K ویورز ہوچکی ہے۔