بلوچستان کا مسئلہ اور سوشل میڈیا صارفین

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سوشل میڈیا کے اس دور میں ہمارے نوجوان سنگین قسم کے قومی مسائل میں بھی مستقل لاابالی پن کا مظاہرہ کرکے اپنے لئے بڑی پریشانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ حماقتیں خود کرتے ہیں اور جب ان کے تلخ نتائج نکلتے ہیں تو پھر یہ نابالغ چی گویرے الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگاتے ہیں۔ اور تاثر یہ دیتے ہیں جیسے بلوچستان کے مسئلے میں ریاستی اداروں کے مؤقف کی حمایت واجب ہو۔ اور بلوچ عوام کی حمایت کوئی ایسا جرم ہو جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے لوگوں کو اٹھا لیتے ہوں۔

آپ کو بلوچستان کے مسئلے پر خیال ظاہر کرنا ہے؟ مؤقف یہ رکھنا ہے کہ ریاست غلط کر رہی ہے؟ اور آپ کو لگتا ہے، اس کی پاداش میں آپ کو اٹھایا جاسکتا ہے؟

بکواس ! نری بکواس !

پرابلم بس اتنی سی ہے کہ آپ کھیل میں حصہ تو لینا چاہتے ہیں مگر کھیلنا جانتے نہیں۔ ہم آپ کو چند موٹی موٹی باتیں سمجھا دیتے ہیں۔ان کے دائرے میں رہ کر آپ جم کر ریاست پر تنقید کیجئے، بلوچوں کی حمایت کیجئے۔ کوئی آپ کو نہیں اٹھائے گا۔ سیاست کوئی جرم نہیں۔ حتٰی کہ اس میں غلط مؤقف اختیار کرنا بھی سیاسی غلطی تو ہے مگر کوئی جرم نہیں کہ اس کی پاداش میں کوئی آپ کو اٹھائے۔

(01) بلوچستان کے مسئلے میں چونکہ ریاستی ادارے بھی انوالو ہیں سو ان سے متعلق کچھ لکھتے وقت آپ کو پہلی احتیاط یہ کرنی ہے کہ ان سے متعلق جو آپ لکھ رہے ہیں، وہ جھوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ ان کی جانب آپ نے جھوٹ منسوب کیا تو سمجھ جایئے کہ آپ کا کھاتہ کھل گیا۔ مگر وہ جلد بازی نہیں کرتے۔ وہ آپ کی فیک نیوز والی ڈیٹا انٹری شروع کر دیتے ہیں۔ اور جب آپ خود کو گھٹنوں تک پھنسا لیتے ہیں تو تب وہ آپ پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ سو اگر اچانک کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے تو محض سوشل میڈیا پر اس کا تذکرہ سن پڑھ کر اس پر یقین نہ کیجئے۔ بلکہ پہلے یہ تحقیق کر لیجئے کہ کیا مین سٹریم میڈیا نے اسے رپورٹ کیا ہے؟ یہ احتیاط اس لئے ضروری ہے کہ جب کوئی مسئلہ اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ اس میں دہشت گردی کا عنصر داخل ہوجائے تو ایسے ماحول میں فیک نیوز کی بھرمار رہتی ہے۔ اور اس طرح کے معاملات میں فیک نیوز سے انسانی جانوں کو براہ راست خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یوں یہ ایک حساس معاملہ ہوتا ہے۔

(02) دوسری چیز آپ کو یہ سمجھنی ہوگی کہ آپ ایک پولیٹکل معاملے میں مؤقف رکھتے ہیں تو اس معاملے کا آپ کو پورا شعور بھی ہونا چاہئے۔ اس صورت میں آپ دلیل کے دم پر اپنا مؤقف پیش کرسکتے ہیں۔ دلائل کا استعمال کرتے ہوئے آپ بیشک طنز کا ہی انداز اختیار کر لیجئے۔ اس کے آپ کو نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔ یہ طنز چبھن تو پیدا کرے گا مگر یہ آپ کے خلاف نہیں جائے گا۔ اگر آپ نے ہمارا کالم “مسئلہ بلوچستان اور چلغوزے والے” پڑھا ہو تو اس میں چلغوزہ پورے تسلسل کے ساتھ طنز کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اٹھانا تو دور کی بات کسی نے ہمیں “وارننگ کال” بھی نہیں دی۔ آپ غلطی یہ کرتے ہیں کہ اداروں کی توہین معمول بنا لیتے ہیں۔ دلیل چھوڑیئے، مؤقف تک آپ کے پاس نہیں ہوتا۔ ہر پوسٹ فقط ایک تذلیل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ بلوچستان کے مسئلے میں کوئی سنجیدہ رول پلے نہیں کر رہے۔ آپ کو فقط اداروں کے خلاف پروپیگنڈے میں دلچسپی ہے۔ اگر آپ توہین کو معمول بنائیں گے تو اگلے آپ کو اچھی طرح سکھا دیں گے کہ توہین میں بھی وہ آپ کے ابا جی لگتے ہیں۔

(03) تیسری بات یہ کہ آپ کے مؤقف کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ نہیں ہونا چاہئے۔ جتنے بھی محفوظ ذرائع سے آپ کو پے کیا جا رہو، اگلوں کو نظر آرہا ہوتا ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں انٹیلی جنس کی فیلڈ کتنی ماڈرن ہوچکی۔ جس طرح دنیا میں مولویوں، ڈاکٹروں، انجینئرز اور صحافیوں وغیرہ کی کمیونٹیز ہوتی ہیں۔ اسی طرح انٹیلی جنس کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کی بھی ایک کمیونٹی ہوتی ہے۔ امریکہ یا برطانیہ کے ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسران سے ذرا پوچھ لیجئے کہ آئی ایس آئی کس سطح کا ادارہ ہے۔ وہ آپ کو بتائیں گے۔

“اپنے ریجن میں وہ دنیا کی سب سے خطرناک ایجنسی ہے۔ افغان جنگ میں اس نے دنیا کی ہر بڑی ایجنسی کو شکست دے رکھی ہے۔ اس کا ہدف بس اتنا سا تھا کہ اس نے اپنے بارڈر پر امریکہ کو جرمنی، جاپان اور کوریا کی طرح مستقل بیٹھنے نہیں دینا۔ اور یہ ہدف اس نے حاصل کیا ہے۔ جو غیر معمولی کامیابی ہے”

سو یہ جو سوشل میڈیا پر “لمبر ون” اور اس طرح کے دیگر طنز چل رہے ہوتے ہیں، ان سے فریب کھائیں گے اور اگلوں کو ہلکا سمجھیں گے تو بھگتیں گے۔ یاد ہے کئی سال قبل ایک صحافی کی موت پر اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی بہت واویلا کیا تھا؟ سوال یہ ہے کہ وہ واویلے سے آگے کچھ کرسکی؟ اس صحافی کو ہانگ کانگ سے ہینڈل کیا جا رہا تھا۔ ہینڈل کرنے والوں کا خیال تھا کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ سو یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ اگر آپ کی سرگرمی کے پیچھے بیرونی فنڈنگ ہے تو آپ اپنی جان سے کھیل رہے ہیں۔

(04) ایک بہت ہی اہم چیز یہ کہ بلوچوں کی حمایت کرتے ہوئے آپ بلوچ قوم کی حمایت کیجئے۔ ان کے لئے حقوق مانگئے۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفصیلات شیئر کیجئے۔ تجاویر دیجئے۔ غرضیکہ کچھ بھی لکھئے مگر آپ کی حمایت “بلوچ قوم” کے لئے ہونی چاہئے۔ کسی دہشت گرد تنظیم یا کسی دہشت گرد کی بیٹی کے لئے نہیں۔ بلوچستان میں کئی سیاسی لیڈر ہیں جو مین سٹریم میں رہ کر بلوچ حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آپ ان کی آواز میں اپنی آواز ملایئے۔ ان کی حمایت کیجئے۔ آپ کی اس حمایت سے بھی بہت سے لوگ اختلاف کریں گے۔ خود ادارے بھی شاید آپ کے اس مؤقف سے متفق نہ ہوں۔ مگر وہ آپ کو اٹھائیں گے نہیں، دھمکائیں گے نہیں۔ اس صورت میں آپ کا مؤقف بس ایک ایسا مؤقف ہوگا جسے غلط کہا سمجھا جا رہا ہوگا۔لیکن یہ آپ کے لئے جان، مال یا عزت کا کوئی خطرہ پیدا نہیں کرے گا۔

(05) اگر آپ بلوچستان کے مسئلے پر مستقل لکھ رہے ہیں، یا ویلاگز کر رہے ہیں تو پھر آپ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ جب بلوچ دہشت گرد کسی معصوم شہری کی جان لیں تو آپ نے اس پر بھی آواز اٹھانی ہے۔ اگر ان کی وارداتوں پر آپ خاموشی اختیار کریں گے تو اسے “خاموش حمایت” کی نظر سے ہی دیکھا جائے گا۔ سیاسی تنازعات میں آپ نے ہر غلط کو مسترد کرنا ہوتا ہے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ غلطی کس کی ہے۔

آخری بات یہ کہ عدم تشدد سیاست کا مدار ہے۔ اس مدار میں تشدد کی راہ جو بھی اختیار کرتا ہے اس کا پہلا نتیجہ سیاسی تنہائی کی صورت نکلتا ہے۔ ایسی سیاسی اکائیاں سیاست کی مین سٹریم کا باقاعدہ حصہ نہیں رہ پاتیں۔ انہیں تب ہی گھاس ڈالی جاتی ہے جب حکومت سازی ان کے بغیر ممکن ہو۔ ورنہ معمول کی سیاسی سرگرمیوں میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمٰن کو ہی دیکھ لیجئے۔ ان کی جماعت صرف حکومت سازیوں کی ضرورت کے طور پر ہی کام نہیں آتی۔ بلکہ ملک کی معمول کی سیاست میں بھی اس کا کردار فعال نظر آتا ہے۔ عددی لحاظ سے ایک چھوٹی جماعت ہے مگر ملکی سیاست میں ہر زاویے سے فعال ہے۔ وہ مختلف سیاسی تحریکوں کا بھی باقاعدہ حصہ نظر آتی رہی ہے۔

اس کے برخلاف ایم کیو ایم صرف حکومت سازیوں کے وقت ہی یاد کی جاتی رہی ہے۔ کسی سیاسی تحریک کا وہ حصہ نہیں رہی۔ ایسا نہیں کہ وہ حصہ بننا نہیں چاہتے تھے، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ دیگر جماعتیں ان سے گریز برتتی تھیں۔ وجہ؟ تشدد کا عنصر۔ سو بلوچستان کا مسئلہ ایک سنگین سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کے حل میں پاکستان کا ہر شہری حصہ لے سکتا ہے۔ مگر یہ حصہ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بلوچ قوم کے پاس پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والی قیادت موجود ہے۔ آپ ان کی حمایت کرتے ہوئے اپنا سیاسی کردار ادا کیجئے۔ اور پرتشدد عناصر کو نظر انداز کیجئے۔ اگر آپ پر امن سیاسی جدوجہد کرنے والوں کی بجائے دہشت گردوں کی حمایت کریں گے تو اپنے لئے مسائل پیدا کریں گے۔ سیاست میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔

Related Posts