کراچی: محکمہ داخلہ سندھ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ اور ان کے دیگر چار ساتھیوں کی 30 روز کے لیے نظربندی کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ 3 ایم پی او کے تحت کیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی فرد کو عوامی نظم و نسق کے پیش نظر حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
کراچی کی مقامی عدالت نے گزشتہ روز درج کیے گئے مقدمے میں سمی دین بلوچ کو ڈسچارج کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے فیصلے کے بعد سمی دین بلوچ اور ان کے ساتھی رہائی کے منتظر تھے، مگر عدالت کے باہر پولیس کی بھاری نفری پہلے سے موجود تھی۔
سمی دین بلوچ نے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالت سے ضمانت ملی، مگر پولیس ہمیں دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ ہمیں 3 ایم پی او کے تحت نظربند کیا جا رہا ہے، جو کہ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ تنظیم کے کئی کارکنان پہلے بھی گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں۔
اس سے قبل بھی بی وائی سی کے رہنماؤں پر احتجاج کے دوران نقصِ امن کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے، تاہم کئی مواقع پر عدالتوں نے انہیں بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔
سیاسی اور سماجی حلقوں نے سمی دین بلوچ کی دوبارہ گرفتاری کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 3 ایم پی او کا استعمال سیاسی کارکنان کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے، جو آزادیٔ اظہار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عوامی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے، تاکہ کسی بھی قسم کے ممکنہ مظاہروں یا احتجاجی سرگرمیوں سے نمٹا جا سکے۔
بی وائی سی کے رہنما اور کارکنان اپنی گرفتاریوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ تنظیم کی جانب سے مزید احتجاج کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتیں ایک بار پھر اس فیصلے پر کیا ردعمل دیتی ہیں اور آیا سمی دین بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی نظربندی کو چیلنج کیا جاتا ہے یا نہیں۔