سیول: جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے ہفتہ کے روز موجودہ صدر یون سک یول کو مارشل لا نافذ کرنے کی مختصر کوشش پر مواخذے کے ذریعے معطل کر دیا۔
مواخذے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے صدر کی اپنی جماعت “پیپل پاور پارٹی” کے کم از کم 12 اراکین نے حزبِ اختلاف کے ساتھ شامل ہو کر ووٹ دیا۔
پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کو 300 نشستوں میں سے 192 پر کنٹرول حاصل ہے اور مواخذے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار تھی۔
مواخذے کے حق میں 204 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 85 مخالفت میں تھے، تین اراکین نے رائے شماری سے اجتناب کیا اور آٹھ ووٹ غیر مؤثر قرار دیے گئے۔
مواخذے کے بعدصدر یون اپنے عہدے پر تو موجود ہیں لیکن ان کے اختیارات معطل کر دیے گئے ہیں۔ آئین کے تحت، وزیرِ اعظم ہان ڈک سو، جو صدر یون کی تقرری ہیں، عبوری صدر کے فرائض انجام دیں گے۔
یہ معاملہ آئندہ چھ ماہ کے دوران ملک کی آئینی عدالت میں پیش ہوگا، جہاں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ صدر کو مستقل طور پر عہدے سے ہٹایا جائے یا نہیں۔
صدر یون جنوبی کوریا کے دوسرے قدامت پسند صدر ہیں جنہیں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان سے قبل پارک گُن ہے کو 2017 میں ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کیلئے کونسے مطالبات پیش کردیئے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، مواخذے کا یہ عمل کئی ہفتے جاری رہ سکتا ہے اور اگر آئینی عدالت کے 9 میں سے 6 اراکین مواخذے کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو صدر یون کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔
اگر صدر کو عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو آئینی عدالت کے فیصلے کے 60 دن کے اندر ملک میں نئے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر وو وون شک کا کہنا ہے کہ “جمہوریہ کوریا کا مستقبل اور ہماری امید عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ ہماری امید مضبوط ہے۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے صدر کے خلاف مواخذے کی پہلی کوشش حکومتی جماعت “پیپل پاور پارٹی” کے بائیکاٹ کی وجہ سے ناکام ہو گئی تھی۔