ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے خود کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کی ذمے داری سے الگ کر لیا ہے۔
ایک بیان میں ایرانی رہبر علی خامنہ ای نے کہا کہ شام میں ہماری فورسز جو کر سکتی تھیں وہ مشاورت کا عمل ہے اور وہ اس نے انجام دیا، یہ کوئی منطقی بات نہیں تھی کہ شام میں ہماری فوج شامی فوج کی جگہ لڑتی۔
خاتون سیلفی لینے کی کوشش میں چلتی ٹرین سے گرگئی، حالت کیسی؟ویڈیو دیکھیں
ایرانی رہبر اعلیٰ نے واضح کیا کہ “شامی فوج نے کمزور دکھائی، کسی بھی دوسری جگہ پر موجود فوج کے بس میں نہ تھا کہ وہ کچھ کر سکے”۔
گذشتہ دنوں کے دوران میں ایران ایک سے زیادہ مرتبہ باور کرا چکا ہے کہ اب یہ شامی عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے اور اپنی قیادت کا انتخاب کرے۔
اس سے پہلے بدھ کے روز جاری بیان میں علی خامنہ ای نے الزام عائد کیا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت گرانے میں ایک پڑوسی ملک کا ہاتھ ہے۔
رہبر اعلی کا کہنا تھا کہ “بشار حکومت کے سقوط میں ایک پڑوسی ملک نے کردار ادا کیا۔ ایران نے ستمبر سے ہی شامی حکومت کو خطرات کی موجودگی ٓسے خبردار کر دیا تھا”۔
اس سے پہلے ایرانی اور علاقائی ذرائع نے بتایا تھا کہ تہران شامی صدر بشار الاسد سے نا خوش تھا جس نے ایران کو باور کرایا تھا کہ سرکاری فوج کا صورت حال پر کنٹرول ہے، اگرچہ مسلح اپوزیشن گروپ اس وقت کئی بڑے شہروں میں پیش قدمی یقینی بنا چکے تھے اور سرکاری مسلح افواج وہاں سے کوچ کر گئی تھیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی گذشتہ ہفتے ایک پیغام لے کر دمشق گئے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ ان کا ملک مزید عسکری سپورٹ فراہم نہیں کر سکتا۔