شام میں باغی پانچویں شہر درعا پر قبضے کے بعد اہم شہر حمص میں داخل ہوگئے، دوسری طرف باغیوں کی دار الحکومت دمشق کی طرف پیش قدمی بھی جاری ہے، جبکہ شامی فوج کا ایک دستہ میدان جنگ چھوڑ کر عراق فرار ہوگیا ہے۔
عرب میڈیا کے حوالے سے موقر جیو نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ سیکڑوں شامی فوجی اور ایران نواز ملیشیا کے درجنوں رضاکار بھاگ کر عراق میں داخل ہوگئے ہیں۔
عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ 1650 شامی فوجیوں اور اعلیٰ سرکاری افسران نےعراق میں پناہ لے لی ہے۔ عراقی شہر القائم میں سیکڑوں زخمی شامی فوجیوں کوطبی امداد بھی دی جا رہی ہے۔
شامی باغی درعا اور قُنیطرہ شہروں پر قبضے کے بعد حمص کے نواحی علاقوں میں داخل ہوئے اور عمارتوں پر لگے صدر بشارالاسد کے پورٹریٹ پھاڑ دیے۔ حما شہر میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کا مجسمہ گرا دیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کا شمالی شہر ادلب پہلے ہی باغیوں کے قبضے میں ہے، حالیہ حملوں کے دوران باغی حلب اور حما کاکنٹرول حاصل کرچکے ہیں جبکہ حمص کی حدود میں داخل ہوکر شامی فورسز کو انخلا کی آخری کال دے رکھی ہے۔
شامی باغیوں کی دارالحکومت دمشق کی جانب پیش قدمی تیزی سے جاری ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق شامی باغیوں نےدعویٰ کیا ہےکہ انہوں نے 24 گھنٹوں کے اندر تقریباً پورے جنوب مغرب پر قبضہ کرلیا ہے اور دمشق سے 30 کلومیٹر کے اندر پیش قدمی کی ہے۔
ترک وزارت خارجہ کے مطابق صدر رجب طیب اردگان نے امید ظاہر کی ہے کہ باغیوں کی پیش قدمی مشکلات کے بغیر جاری رہےگی، ادلب، حَماہ اور حمص کے بعد یقیناً ہدف دمشق ہے۔
شام کا کونسا صوبہ کس کے کنٹرول میں ہے، نقشے کی مدد سے پوری تفصیل
ترک صدر کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کو ملاقات کی دعوت دی تھی تاہم مثبت جواب نہیں ملا۔ شامی صدر نے کسی بھی ملاقات سے پہلے شمال میں ترک فوج کے زیر کنٹرول علاقوں سے انخلا کی ضمانت طلب کی تھی۔
امریکی اخبار کے مطابق اردن اور مصر نے شامی صدر بشارالاسدکو شام چھوڑنےکا مشورہ دیا ہے تاہم شامی صدر نے انکار کیا ہے۔