پاکستان کی تقریباً 70 فیصد آبادی کو اسموگ کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جن میں کھانسی، زکام اور سانس لینے میں دشواری جیسے عام علامات شامل ہیں۔
صورتحال کی شدت
گزشتہ ماہ پنجاب میں صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی کہ اسے “آفت” قرار دے دیا گیا۔ پنجاب میں ہوا کے معیار کا انڈیکس اکثر 1000 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو کہ خطرناک حد 300 سے کئی گنا زیادہ ہے۔
پنجاب کے میڈیکل مراکز میں صرف ایک ماہ میں تقریباً 20 لاکھ افراد نے سانس اور دیگر نظام تنفس سے متعلق مسائل کے لیے رجوع کیا۔ لاہور اور راولپنڈی ان شہروں میں شامل ہیں، جہاں اسموگ کے اثرات سب سے زیادہ محسوس کیے گئے۔
سروے کے نتائج
ایک حالیہ سروے کے مطابق 18 سے 22 نومبر کے درمیان کیے گئے ایک مطالعے میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کے 79 فیصد لوگوں نے گزشتہ مہینے میں اسموگ کا سامنا کیا۔ لاہور میں یہ شرح 100 فیصد رہی۔
سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 68 فیصد افراد کوا سموگ سے متعلق صحت کے مسائل کا سامنا ہے اور شہری علاقوں کے لوگ دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے۔ 35 فیصد سے زیادہ افراد نے بتایا کہ اسموگ کی وجہ سے ان کے روزمرہ کے کام متاثر ہوئے، جن میں گھریلو کام، ملازمت، اور سماجی تقریبات شامل ہیں۔
اسموگ کی وجوہات
زیادہ تر لوگوں نے اسموگ کا بنیادی سبب گاڑیوں کے دھوئیں (70 فیصد) کو قرار دیا جبکہ صنعتی دھواں (63 فیصد) اور کچرے کو جلانا (37 فیصد) دوسرے بڑے عوامل تھے۔ کچھ افراد نے اینٹوں کے بھٹے اور فصلوں کی باقیات جلانے کو بھی اس مسئلے کی وجہ قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً 20 فیصد افراد نے اسموگ کو “اللہ کا قہر” قرار دیا۔
اقدامات اور چیلنجز
جب مسئلے سے نمٹنے کے رکاوٹوں کی بات آئی تو 44 فیصد افراد نے عوامی تعاون کی کمی کو ذمہ دار ٹھہرایاجبکہ 37 فیصد نے قوانین کے ناقص نفاذ کو مسئلہ قرار دیا تاہم زیادہ تر پاکستانیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اجتماعی اقدامات ضروری ہیں۔
80 فیصد افراد نے کہا کہ وہ اسموگ کم کرنے کے لیے اپنی طرز زندگی بدلنے کے لیے تیار ہیں، جیسے پیدل چلنا، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال یا سائیکل چلانا۔ 90 فیصد گاڑی مالکان نے اپنی گاڑیوں کی مرمت اور حکومتی سرٹیفکیشن لینے پر آمادگی ظاہر کی۔
حکومتی اقدامات پر تنقید
اگرچہ کچھ افراد نے اپنی صوبائی حکومت کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا لیکن زیادہ تعلیم یافتہ افراد میں یہ اطمینان کم پایا گیا، جس سے حکومتی حکمت عملیوں کی مؤثریت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔